Maktaba Wahhabi

134 - 156
تکلیف میں اضافہ ہو یا شفا مؤخر ہورہی ہو تو اس کا یہ فریضۃ بیمار عضو کے پانی کے ساتھ مسح میں بدل جائے گا۔ اور اگر مسح سے بھی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس پر ضروری ہے کہ اپنے زخم پر پٹی باندھ لے یا ٹوٹی ہوئی جگہ پر تختی کس لے، اس طرح کہ وہ بیمار عضو سے صرف باندھنے کی ضرورت کے بقدر ہی تجاوز کررہی ہو۔ پھر وہ ایک دفعہ اس تمام پر مسح کرلے گا۔ تختی ہو یا پٹی انھیں باندھنے کے لیے طہارت کے ہونے کی شرط نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس میں وقت کی تعیین ہے بلکہ وہ اس پر وضو یا غسل میں اس پر اس وقت تک مسح کرسکتا ہے جب تک عذر باقی رہے۔ مسح کو باطل کرنے والے امور: پٹی پر مسح اسے اس کی جگہ سے اتارنے یاتندرست ہونے کے بعد اس کے وہاں سے گر جانے یا محض اس جگہ کے تندرست ہوجانے سے ختم ہوجاتا ہے، اگرچہ پٹی نہ ہی گرے۔ اس شخص کی نماز جس پانی ملے اور نہ ہی مٹی: جس شخص کو کسی صورت پانی یا مٹی میسر نہ آئے تو وہ حسب حال نماز پڑھ لے گا اور اس پر نماز کو دہرانا بھی ضروری نہیں ہوگا۔ کیونکہ مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ’’انھوں نے اسماء رضی اللہ عنہا سے ہار ادھار لیا تو وہ گم ہوگیا۔ اسے تلاش کرنے کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے کچھ لوگوں کو بھیجا ۔ انھیں وقت نے آلیا تو انھوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی۔ تو جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بات رکھی۔ تو تیمم والی آیت نازل ہوگئی۔ اسید بن حضیر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر عطا کریں کیونکہ بخدا آپ کے بارے میں کوئی بھی حادثہ ہوا تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے اس سے نکلنے کا رستہ پیدا فرما دیا۔ اور مسلمانوں کے لیے اس میں برکت بنا دی۔ ‘‘یہ صحابہ ہیں کہ انھوں نے جب اس چیز کو نہ پایا جو ان کے لیے طہارت کا ذریعہ تھی تو انھوں نے ویسے ہی نماز ادا کرلی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بات رکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تنقید نہیں فرمائی اور نہ ہی انھیں نماز لوٹانے کا حکم دیا۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ مختلف اقوال میں سے یہ قول دلیل
Flag Counter