اپنے معاملے کو آپ کے سپرد کردیا، اور اپنے کمر کو آپ کی پناہ میں جگہ دی، آپ کی طرف رغبت کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے، نہیں ہے کوئی پناہ گاہ اور نجات کی جگہ آپ سے مگر آپ کی طرف۔ اے اللہ میں آپ کی کتاب جو آپ نے نازل فرمائی ہے، پر ایما لایا، اور آپ کے نبی کہ جسے آپ نے بھیجا ہے، پر ایمان لایا۔ تو اگر آپ اس رات وفات پاجائیں تو فطرت پر فوت ہوں گے۔ اور ان کلمات کو گفتگو کے آخر میں پڑھیے۔‘‘ کہتے ہیں کہ میں نے ان الفاظ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دہرایا تو جب میں ان الفاظ پر پہنچا کہ ﴿اللہم آمنت بکتابک اللّٰہ انزلت﴾ تو میں نے اس جگہ ﴿ورسولک﴾ پڑھ دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ نہیں یہی الفاظ پڑھیے﴿ونبیک الذی ارسلت﴾۔‘‘اسے احمد، بخاری اور ترمذی نے بیان کیا ہے۔ اور یہ چیز جنبی شخص کے حق میں زیادہ تاکید والی ہوجاتی ہے، کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم میں سے کوئی شخص حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ ہاں مگر جب وہ وضو کرلے۔‘‘عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حالت جنابت میں سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنی شرم گاہ کو دھوتے اور نماز کے لیے کیے جانے والے وضو کی طرح وضو کرتے۔‘‘اسے جماعت نے بیان کیا ہے۔
جنبی کے لیے بھی وضو مستحب ہے: جب جنبی شخص کھانا، پینا یا دوبارہ ازدواجی تعلق قائم کرنا چاہے تو اس کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب جنبی ہوتے اور کھانایا سونا چاہتے تو وضو کرتے۔‘‘ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنبی کے لیے رخصت فراہم فرمائی کہ جب وہ کھانا، پینا ی اسونا چاہے کہ وہ نماز کے لیے کیے جانے والے وضو کی طرح وضو کرلیے۔‘‘ اسے احمد اور ترمذی نے بیان کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ ’’ جب تم میں سے کوئی اپنی گھر والی کے پاس آئے پھر دوبارہ جانا چاہے تو اسے وضو کرلینا چاہیے۔‘‘ اسے بخاری کے علاوہ جماعت نے بیان کیا ہے۔ اور ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم
|