٭ ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح مال و دولت سے بے پروا کردیا تھا؟ کیا قرآن مجید میں اس بات کا تذکرہ ہے؟
تیمم
۱۔ تعریف:
تیمم کا لغوی معنی ارادہ کرنا ہے۔ جبکہ اصطلاحی مفہوم کے مطابق نماز وغیرہ کو جائز کرنے کے لیے چہرے اور ہاتھوں کے مسح کی خاطر سطح زمین کا قصد کرنا تیمم کہلاتا ہے۔
۲۔تیمم کے مشروع ہونے کی دلیل:
تیمم کا شریعت کا حصہ ہونا کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے:
﴿ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ﴾ (النساء:۴۳)
’’ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منھ اور اپنے ہاتھ مل لو۔ بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔‘‘
باقی رہی سنت تو ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اس کی دلیل ہے۔ ان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میرے اور میری امت کے لیے ساری زمین سجدہ گاہ اور پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔ اس لیے میرے امت کے کسی شخص کو جہاں نماز کا وقت پا لے تو اس کے پاس کی پاکیزگی کاذریعہ موجود ہوگا۔‘‘ رواہ احمد۔ جہاں تک اجماع سے دلیل کا تعلق ہے تو اس کا دعوی اس لیے کیونکہ مسلمان تیمم کے خاص شکلوں میں وضو اور غسل کے متبادل کے طور پر مشروع ہونے پر متفق ہیں ۔
3۔ تیمم کا اس امت کے ساتھ خاص ہونا:
|