ضمن میں اس پر بات ہوچکی ہے، اس کے بعد وہ بسم اللہ پڑھے گا۔ اور اپنے ہاتھوں کو پاک سطح زمین پر مارے اور انھیں اپنے چہرے اور کلائیوں تک ہاتھوں تک رگڑے۔ اس بارے میں عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث سے زیادہ صریح اور صحیح حدیث وارد نہیں ہوئی۔ کہتے ہیں کہ’’ میں جنبی ہوگیا لیکن پانی نہ ملا تو میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا اور نماز پڑھ لی۔ بعد میں میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ آپ کوایسا کرنا کافی ہوجاتا ‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان میں پھونک ماری پھر انھیں اپنے چہرے اور ہتھیلیوں پر رگڑا۔ ‘‘رواہ الشیخان۔ ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں کہ ’’ آپ ہتھیلیوں کو مٹی پر مارتے پھر ان میں پھونک مار کر اپنے چہرے اور کلائیوں تک ہتھیلیوں پر رگڑ لیتے تو کافی ہوجاتا۔‘‘رواہ الدار قطنی۔ اس حدیث میں ایک ہی ضرب کو کافی قرار دیا گیا ہے اور ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر مسح پر اقتصار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ وہ شخص جو مٹی کے ساتھ تیمم کرے کے لیے سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو جھاڑے اور ان میں پھونک مارے۔ اور مٹی کے ساتھ اپنے چہرے کو لت پت نہ کرلے۔
8۔ وہ امور جن کے لیے تیمم مباح ہوتا ہے:
کیاآپ جانتے ہیں ؟ کہ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے نام کے بارے میں بھی ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی طرح اختلا ف ہے۔ آپ سابقین الاولین میں شمار ہوتے ہیں ۔ گندمی رنگت تھی ، جسم بھاری تھا اور داڑھی گھنی تھی۔ آپ زہد میں معروف تھے حتی کہ کسی تبصرہ کرنے والے نے کہا کہ اگر آپ مسلمان نہ ہوتے تو یقینا رہبانیت تک پہنچ جاتے۔سچی بات کہنے والے تھے، ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں فتوی دیتے رہے۔ ربذہ کے مقام پر ۳۲ ہجری میں وفات پائی۔
تیمم پانی کے نہ ہونے کے وقت وضو اور غسل کا متبادل ہوتا ہے اس لیے اس کے لیے ہر وہ کام مباح ہوگا جو ان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مثلا نماز، مصحف کو چھونا وغیرہ۔ اور اس کے صحیح ہونے کے لیے وقت کے ہونے کی شرط نہیں ہے۔ اور تیمم کرنے والے کے لیے جائز
|