رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور برتن سے اپنے دائیں ہاتھ پر انڈھیلا اور انھیں تین مرتبہ دھویا۔ پھر اپنے دائیں ہاتھ کوپانی میں داخل کیا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا اور جھاڑا۔ پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا۔ اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا پھر دو رکعات نماز پڑھی ان میں اس نے اپنے آپ سے بات نہ کی تو اسے گذشتہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔‘‘ اس روایت کو بخاری و مسلم وغیرہ نے بیان کیا ہے۔
آنکھوں کے گڑھوں ، چہرے کی جھریوں ، انگوٹھی کو ہلانا اور گردن پر مسح کا بیان جو باقی رہ گیا ہے ہم اس کے بیان کے درپے نہیں ہورہے کیونکہ اس بارے میں احادیث صحیح کے درجہ پر نہیں ہوتیں ۔ اگرچہ ان پر نظافت کو پورا کرنے کے لیے عمل کیا جاسکتا ہے۔
وضو کے مکروہات
وضو کرنے والے شخص کے لیے ناپسندیدہ ہے کہ وہ مذکورہ بالا سنتوں میں سے کسی سنت کو چھوڑے، تاکہ وہ اس کے ثواب سے محروم نہ ہو ہوجائے۔ کیونکہ مکروہ کام کرنا ثواب کو ضائع کرنے کا باعث بنتا ہے اور سنت کو چھوڑ دینے سے کراہت ثابت ہوجاتی ہے۔
کراہت کا لغوی معنی ناپسندیدہ کا ہے۔ یہ لفظ استحباب کے متضاد ہے۔ اصطلاح میں اس سے مطلب یہ ہے کہ کسی چیز سے رکا اور بچا جائے لیکن رکنا اور بچنا ضروری نہ ہو۔ کسی کام کے مکروہ ہونے کا علم تین طرح ہوتا ہے۔
کسی کام کو چھوڑنے پر ثواب کا ذکر ہو۔ ساتھ ساتھ ایسی دلیل بھی ہو کہ جس سے علم ہو کہ یہ کام حرام نہیں ہے۔ وگرنہ اس سے بچنا ضروری ہوگا۔
کسی کام سے حکمی طور پر روکا جائے لیکن ساتھ میں کوئی قرینہ بھی ہو کہ جس سے علم ہو کہ اس کام سے رکنا ضروری نہیں ہے۔
|