Maktaba Wahhabi

26 - 352
اللہ تعالیٰ کی صفات پر بلاتحریف ،بلاتعطیل ،بلاتکییف اور بلاتمثیل ایمان لانا فرض ہے ۔ تحریف: کا معنی تبدیل کرنا،اور کسی شیٔ کو اس کی اصل صورت سے پھیر دینا … اس کی ووقسمیں ہیں (۱) تحریف ِلفظی (۲) تحریف معنوی تحریف لفظی یہ ہے کہ کلام کے اصل معنی مراد کو پھیرنے کی خاطر اس کے الفاظ میں رد وبدل کردیا جائے …چنانچہ کوئی لفظ یا حرف بڑھا دیا جائے یا کم کردیا جائے ،یا پھر حرکتِ اعرابی (زبر،زیر،پیش) کی تبدیلی کردی جائے۔ اضافۂ حرف کی مثال: بعض اہل ضلال نے قولہ تعالیٰ ’’ الرحمن علی العرش استوی‘‘ کے بارہ میں أی:استولٰی کہا ہے ،اس طرح آیت میں انہوں نے ایک حرف یعنی لام کا اضافہ کردیا ۔ لفظ کے اضافے کی مثال: بعض اہل ضلال نے قولہ تعالیٰ ’’وجا ء ربک‘‘میں کہا ہے: أی جاء أمر ربک‘‘گویا انہوں نے لفظ ’’أمر‘‘ کا اضافہ کردیا۔ تبدیلی اعراب کی مثال: قولہ تعالیٰ : ’’ کَلَّمَ اللّٰه مُوْسٰی تَکْلِیْمًا‘‘ چنانچہ آیتِ کریمہ میں لفظ جلالہ ’’اللہ ‘‘ پیش کے ساتھ ہے،لیکن اہل ضلال نے پیش کو نصب سے تبدیل کردیاتاکہ اپنے الحاد کو اس حرکتِ اعرابی کی تحریف کے ذریعہ ثابت کرسکیں۔ تحریفِ معنوی یہ ہے کہ کسی بھی کلام کو اس کی حقیقت سے اسطرح پھیر نا کہ اس لفظ کو اصل معنی کی بجائے دوسرا معنی دے دیا جائے جیسا کہ مبتدعہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت کا معنی ارادئہ انعام کرتے ہیں (جوباطل ہے) تعطیل کا لغوی معنی کسی چیز کو خالی کرنا،یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسکی صفات کی نفی کرنا۔ تحریف اورتعطیل میں فرق یہ ہے کہ تحریف سے مراد یہ ہے کہ معنیٔ صحیح کہ جس پر نصوص دلالت کررہے ہیں کی نفی کرکے اسے معنیٔ غیر صحیح سے بدل ڈالنا ۔جبکہ تعطیل سے مراد معنیٔ صحیحہ کی نفی کرنا ہے (معنیٔ غیر صحیح سے بدلنا نہیں) جیسا کہ فرقۂ مفوضہ کا عمل ہے ۔
Flag Counter