Maktaba Wahhabi

27 - 352
اس سے ثابت ہوا کہ تعطیل کا عمل عام ہے اور تحریف کا عمل خاص ہے چنانچہ ہر محرف معطلہ میں سے ہے لیکن ہر معطل محرف نہیں ہوسکتا۔ تکییف سے مراد صفت کی کیفیت کو معین کرنا، اس کا فعل ’’کَیَّفَ‘‘ ہے جس کا معنی ہے کہ کسی شیٔ کی کیفیتِ معلومہ مقرر کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کی تکییف کا معنی ہوگا ان کی کیفیت وھیئت کا تعین … یہ کام بشر کی طاقت سے ماوراء ہے ؛کیونکہ کیفیت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور ایک انسان کی اس تک کوئی رسائی نہیں ،کیونکہ صفت،ذات کے تابع ہے تو جس طرح ایک انسان کیلئے اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت کی معرفت ممکن نہیں ہے، اسی طرح اس کی صفات کی کیفیت کی معرفت بھی ممکن نہیں ہے،اسی لیئے جب امام مالک سے پوچھا گیا: کہ { اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی } اللہ تعالیٰ عرش پر کس طرح مستوی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا استواء علی العرش معلوم ہے، لیکن کیفیت مجہول ہے،استواء پر ایمان واجب ہے اور استواء کی کیفیت کا سوال بدعت ہے ۔ تمام صفاتِ باری تعالیٰ کے بارہ میں اسی طرح کہنا چاہئے۔ تمثیل کا معنی تشبیہ ہے ۔یعنی یوں کہنا :اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات کے مثل ہیں… جیسے کوئی شخص کہے :اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی طرح ہے اور اللہ کا سمع ہمارے سمع کے مثل ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کے عقیدے سے بلند وبالا اور پاک ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ الشوریٰ آیت (۱۱) میں فرمایاہے:{ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ} (الشوریٰ:۱۱) ترجمہ:’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے ‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارہ میں یہ عقیدہ نہ رکھا جائے کہ وہ ہماری صفات کی مثل یا مشابہ ہیں جیسا کہ یہ عقیدہ باطل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہماری ذات کے مثل یا مشابہ ہے ۔
Flag Counter