Maktaba Wahhabi

99 - 156
صرف جنابت کی وجہ سے ہی اتاریں گے۔‘‘ اس روایت کو شافعی، احمد، ابن خزیمہ، ترمذی اور نسائی نے بیان کیا ہے۔ اور ان ترمذی و نسائی نے اسے صحیح بھی کہا ہے۔ شریح بن ھانء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے کہ ’’ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ علی رضی اللہ عنہ سے پوچھیے کیونکہ وہ اس مسئلہ کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ تو میں ان سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ مسافر کے لیے تین دن اور ان کی راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن اور اس کی رات مسح کی رخصت ہے۔‘‘ اس روایت کو احمد، مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بیان کیا ہے۔ بیہقی کہتے ہیں کہ یہ روایت اس مسئلہ میں صحیح ترین ہے۔ جبکہ پسندیدہ بات یہ ہے کہ اس مدت کی ابتداء مسح کے وقت سے شروع ہوگی۔ اور یہ بھی قول ہے کہ موزے پہنے کے بعد بے وضو ہونے کے وقت سے۔ کیا آپ نے نوٹ کیا کہ مسافر کو مسح میں مقیم کی بنسبت زیادہ سہولت دی گئی۔ یہ شریعت کا مزاج ہے کہ جب تنگی بڑھتی جاتی ہے تو احکام شریعت میں رخصت اسی تناسب سے آتی جاتی ہے۔ مقیم کے لیے بھی موزوں کو بار بار اتارنا تنگی کا باعث تھا، اس لیے اسے بھی محدود چھوٹ دی گئی۔ یہ شریعت اسلام کے محاسن میں سے ہے۔ مسح کا طریقہ: وضو کرنے والے کے لیے وضو مکمل کرنے اور موزہ یا جراب پہننے کے بعد درست ہے کہ جب بھی وہ وضو کرے تو پاؤں کو دھونے کے عوض میں مسح کرلے۔ یہ رخصت مقیم ہونے کی حالت میں ایک دن اور رات ہے۔ اور جب وہ مسافر ہو تو پھر تین دن اور ان کی راتیں ۔ البتہ جب وہ جنبی ہوجائے تو پھر اس پر موزوں وغیرہ کو اتارنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس بارے میں آپ صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث ملاحظہ کرچکے ہیں ۔ وہ امور جن سے مسح ختم ہوجائے گا: موزوں پر مسح کو مندرجہ ذیل امور ختم کردیں گے:
Flag Counter