میں ہے کہتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کا غسل کرتے تو دودھ کے برتن جیسا کوئی برتن منگواتے ۔ تو دائیں ہتھیلی میں پانی لیتے اورپہلے دائیں جانب اور پھر بائیں جانب پانی بہاتے۔ پھر دونوں ہاتھوں سے پانی لیتے اور اپنے سر پر بہا لیتے۔ ‘‘میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت ہے کہتی ہیں کہ ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی رکھا تاکہ آپ غسل کرلیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں پر پانی بہایا اور انھیں دو یا تین مرتبہ دھویا۔ ھر اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالا اور اپنی شرم گاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ زمین پر رگڑا پھر کلی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے پھر اپنا سر تین مرتبہ دھویا ۔ پھر اپنے جسم پر پانی بہایا پھر اس جگہ سے الگ ہوئے اور اپنے پاؤں دھو لیے۔ فرماتی ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کپڑا لے کر آئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ارادہ نہیں فرمایا اور اپنے ہاتھ سے پانی جھاڑنے لگے۔‘‘اسے کئی محدثین نے بیان کیا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلق فعل استحباب پر دلالت کرتا ہے۔
خواتین کا غسل
عبید بن عمیرقصہ گو اور واعظ تابعی ہیں ، حتی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان کی مجلس وعظ میں تشریف لے جایا کرتے۔ ان کی ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہوگئی تھی۔ عمر ، علی، ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے شاگرد ہیں ۔
عورت کا غسل بھی مرد کے غسل کی طرح ہے۔ البتہ عورت کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی مینڈھیاں کھولے بشرطیکہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ رہا ہو۔ کیونکہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ’’ ایک خاتون نے عر ض کیا اے اللہ کے رسول! میں بالوں کو سختی سے باندھنے والی عورت ہوں تو کیا میں انھیں (غسل) جنابت کے وقت کھولوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ آپ کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ سر پرپانی کے تین چلو بہا لیا کریں ۔ پھر اپنے تمام جسم پر پانی بہا لیا کریں ۔ اس وقت آپ پاک ہوجائیں گی۔‘‘ رواہ احمد ومسلم والترمذی۔ امام
|