Maktaba Wahhabi

109 - 156
ہوجائے تو اس کے ساتھ تحریم پر استدلال کرنا درست ہوگا۔ لیکن جہاں تک پہلی حدیث کا تعلق ہے تو اس میں ایسی بات نہیں ہے کہ جو تحریم پر دلالت کرے۔ کیونکہ اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابت کی حالت میں قرات چھوڑی ہے۔ اس طرح کی دلیل تو کراہت کا استدلال کرنے کے لیے درست نہیں ہوتی، تو اس سے تحریم کا استدلال کیونکر ہوسکتا ہے۔ (ان کی بات مکمل ہوئی)‘‘امام بخاری، طبرانی ، داؤد اور ابن حزم جنبی کے لیے قرات کے جواز کے قائل ہیں ۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ ’’ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ حائضہ کے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ آیت پڑھ لے۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ بہت بڑے فقیہ اور تابعی ہیں ۔ یہ امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ کے اساتذہ میں شامل ہیں ۔ یہاں ان کے بارے میں یہ بیان ہے کہ وہ حائضہ خاتون کے لیے ایک آیت پڑھنے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔ ان کے اس قول کی گہرائی جاننے کی کوشش کیجئے۔ اور ابن عباس جنبی کے لیے قرات میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر حال میں کرلیا کرتے تھے۔ ‘‘ حافظ ابن حجر اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ مصنف یعنی امام بخاری کے نزدیک اس مسئلہ میں وارد شدہ احادیث میں سے کوئی ثابت نہیں ہے،۔ یعنی جنبی اور حائضہ کو قرات سے منع کرنے کے بارے میں ۔ اگرچہ اس بارے میں وارد شدہ روایات کا مجموعہ ان کے علاوہ دیگر یہاں ایسا ہوجاتا ہے کہ جس کے ساتھ دلیل قائم ہوجائے۔ لیکن ان میں اکثر روایات قابل تاویل ہیں ۔ مسجد میں ٹھہرنا: جنبی پر مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے فرماتی ہیں کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ ان گھروں کے رخ مسجد کی طرف سے ہٹا دیجئے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ تشریف لائے تو ابھی تک لوگوں نے کچھ نہ کیا تھا، انھیں امید تھی کہ ان کے بارے میں
Flag Counter