اوقات میں پاک ہوتی ہیں ‘‘ وہ کہتے ہیں کہ حیض، حمل ، بلوغت اور اس جیسے دیگر معاملات میں خواتین کو ایک دوسرے پر قیاس کرنے میں یہ اصل کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘
ج: یہ کہ اس کا معمول مقرر نہ ہو لیکن وہ حیض کو دوسرے خون سے ممتا زکرسکتی ہو تو اس حالت میں وہ امتیاز والے اصول پر عمل کرے گی۔ کیونکہ فاطمہ بن ابی حبیش رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ’’وہ مستحاضہ خاتون تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کہا کہ ’’ جب حیض کا خون ہو تو وہ سیاہ ہوتا ہے پہچانا جاسکتا ہے۔ اس لیے جب ایسا ہو تونماز سے رکھ جائیے اور جب کوئی اور رنگ ہو پھر وضو کیجئے اور نماز پڑھیے کیونکہ یہ ایک رگ ہے۔‘‘قبل ازیں یہ روایت گزر چکی ہے۔
۳۔ مستحاضہ کے احکام:
مستحاضہ کے کچھ احکام ہیں جن کی ہم ذیل میں تلخیص کررہے ہیں :
۱: اس خاتون پر کسی چیز کے لیے غسل واجب نہیں ہے نماز اور اوقات میں کسی وقت کے لیے سوائے ایک ہی مرتبہ کے، اس وقت جب حیض ختم ہو۔ سلف اور خلف میں سے جمہور اسی کے قائل ہیں ۔
ب: اس خاتون پر ہر نماز کے لیے وضو ضروری ہے۔ کیونکہ بخاری کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’ پھر ہر نماز کے لیے وضو کیجئے۔‘‘ جبکہ امام مالک کے ہاں ہر نماز کے لیے وضو مستحب ہے اور واجب کسی اور حدث کی وجہ سے ہی ہوگا۔
ج: وضو سے قبل اپنی شرم گاہ کو دھوئے اور اس میں کوئی کپڑایا روئی ٹھونس لے تاکہ نجاست کو دور کیا جاسکے اور اس میں کمی کی جاسکے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ بھی خون ختم نہ ہو تو وہ اپنے شرم گاہ پر کوئی کپڑا اچھی طرح باندھ لے۔لیکن یہ اس پر ضروری نہیں ہے صرف افضل ہے۔
د: جمہور کے نزدیک نماز کا وقت داخل ہونے سے قبل وضو نہ کرے کیونکہ اس کی طہارت ضرورت کے وقت کی ہے۔اس لیے وہ ضرورت کے وقت سے قبل اسے نہ کرے۔
|