ان کے دلائل تمام المنہ میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔
جو شخص حج کے لیے عرفہ میں وقوف کررہا ہے اس کے لیے بھی غسل کرنا مندوب ہے۔ کیونکہ مالک نافع سے بیان کرتے ہیں کہ ’’ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما احرام باندھنے سے قبل غسل کیا کرتے تھے، نیز مکہ میں داخل ہوتے ہوئے اور عرفہ کی شام وقوف کے لیے بھی۔‘‘
غسل کے ارکان
مشروع غسل کی حقیقت مندرجہ ذیل دو معاملات پر ہی مکمل ہوتی ہے:
نیت:
کیونکہ نیت معمول کے کاموں سے عبادت کو ممتاز کرتی ہے۔ اور نیت صرف دل کا عمل ہے۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے جس پر لوگ چل پڑھے ہیں اور اس کے تلفظ کے عادت اپنا چکے ہیں تو یہ نیا کام ہے اور غیر مشروع ہے۔ اس لیے اسے چھوڑنا چاہیے اور اعراض برتنا چاہیے۔ وضو میں نیت کی حقیقت پر قبل ازیں بات گزر چکی ہے۔
تمام اعضا کو دھونا:
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا ﴾ (المائدہ :۶)
’’ اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرلو۔ ‘‘
یعنی غسل کیجئے۔ اور اللہ تعالیٰ کا مزید فرمان ہے:
﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ ﴾ (البقرۃ:۲۲۲)
’’ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجیئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ ۔‘‘
یعنی غسل کیجئے۔ اس بات کی دلیل کہ یہاں تطہر سے مراد غسل ہے، اللہ تعالیٰ کا یہ واضح
|