جائزہ لیجئے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر وہ نماز میں داخل ہونے اور فارغ ہونے سے پہلے پانی پا لے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ اور اس پر پانی کے ساتھ پاکی حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ اس کی دلیل ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی گذشتہ بالا حدیث ہے۔ اور جب جنبی یا حائض تیمم کو مباح کرنے والے اسباب میں سے کسی سبب سے کی وجہ سے تیمم کریں اور نماز پڑھیں تو ان پر نماز کا اعادہ ضروری نہیں ہے۔ البتہ جب وہ پانی کے استعمال پر قادر ہوں تو غسل واجب ہے۔ کیونکہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور جب اپنی نماز سے پلٹے تو دیکھاکہ ایک شخص الگ کھڑا ہے اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کہ’’ آپ کو نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا کہ مجھ پر حالت جنابت طاری ہوگئی ہے۔ اور میں نے پانی بھی نہیں پایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مٹی استعمال کیجے وہ آپ کو کفایت کرجائے گی۔‘‘پھر عمران رضی اللہ عنہ نے یہ بات ذکر کی کہ جب صحابہ نے پانی پالیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جس پر جنابت طاری تھی، پانی کا برتن دیا اور فرمایا کہ ’’ جائیے اور اسے اپنے اوپر انڈھیل لیجئے۔‘‘ رواہ البخاری
پٹی وغیرہ پر مسح
تختی اور پٹی پر مسح کی مشروعیت:
کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ پٹی پر مسح کے بارے میں مروی تمام روایات ضعیف ہیں اور ان کا ضعف اس قدر شدید ہے کہ یہ ایک دوسرے کو تقویت نہیں دی سکتیں ۔ اس لیے پٹی پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ شریعت میں دو امور ہی جائز ہیں ۔ وضواور غسل یا اگر یہ ممکن نہ ہو تو متبادل تیمم ہے، کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص وضو یا غسل نہیں کرسکتا تو شریعت اسے تیمم کی رخصت دیتی ہے۔ البتہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اثر کی سند صحیح ہے لیکن اس
|