Maktaba Wahhabi

59 - 156
اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُئُ سِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ﴾ (المائدۃ:۶) ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو، سروں پر ہاتھ پھیر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔‘‘ دوسری دلیل:سنت ہے، ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ جب کوئی شخص بے وضو ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتے تاوقتیکہ وہ وضو کرے۔‘‘ رواہ الشیخان وابو داؤد والترمذی تیسری دلیل: اجماع ہے، مسلمانوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر ہمارے آج کے دن تک وضو کے شریعت کا حصہ ہونے پر اتفاق ہے، اس لیے اس کی حیثیت بدیہی طور پر معلوم ہونے کی ہوگئی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ عبد اللہ الصنابحی کے صحابی ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی خاطر مدینہ آرہے تھے، ابھی رستے میں ہی تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں ۔ امام بخاری کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ ان کی روایات مرسل ہیں ۔ ۲۔ وضو کی فضیلت: وضو کی فضیلت میں کئی احادیث مروی ہیں ، ان میں سے کچھ کی طرف ہم اشارہ کرنے پر اکتفاکریں گے: ا: عبد اللہ الصنابحی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ جب بندہ وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے تو غلطیاں اس کے منہ سے نکل جاتی ہیں ۔ اور جب وہ ناک جھاڑتا ہے تو غلطیاں اس کی ناک سے نکل جاتی ہیں اور جب وہ اپنا چہر دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے غلطیاں نکل جاتی ہیں حتی کہ اس کی آنکھوں کے پلکوں کے نیچے سے
Flag Counter