Maktaba Wahhabi

59 - 352
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ یہ چاروں نام آپس میں متقابل ہیں چنانچہ دوناموں ’’الاول‘‘ اور ’’الآخر‘‘میں ازلیت اور ابدیت جبکہ دوناموں ’’الظاہر‘‘اور ’’الباطن‘‘میں علو وقرب پایاجاتا ہے ’’الاول‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اس کی اولیت ،کائنات کی ہر شیٔ کی اولیت سے پہلے ہے۔ ’’الآخر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اس کی آخریت ،دنیا کی ہر شیٔ کی آخریت کے بعد بھی ثابت ہوگی۔ چنانچہ اس کے اول ہونے کا معنی دنیاکی ہر چیز سے پہلے ہونا ہے، اور اس کے آخرہونے کا معنی دنیا کی ہر چیزکے بعد باقی ہونا ہے۔ اور اس کے ’’الظاہر‘‘ہونے سے مراد دنیا کی ہر چیز کے اوپر اور بلند ہونا ہے ہرشیٔ کا ظاہر وہ حصہ ہوتا ہے جو ا وپر ہو ،لہذا اللہ تعالیٰ کا ظاہر ہونام پوری خلق پر علو کے متقاضی ہے۔ اور اس کے ’’باطن‘‘ ہونے سے مراد ہر شیٔ کا احاطہ کیئے رکھنا ہے اور وہ اس طرح کہ وہ ہر ایک سے اس کی ذات سے بھی زیادہ قریب ہے، اس قرب سے احاطۂ عامہ مراد ہے ‘‘ (انتھی کلام ابن القیم) اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ‘‘سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم تمام امور خواہ ان کا تعلق زمانۂ ماضی سے ہو یا حال سے یا مستقبل سے ہو، اور ہر عالم خواہ وہ علوی ہو یا سفلی اور ہر ظاہر وبا طن کو محیط ہے ۔تمام آسمانوں اور زمینوں میں کوئی ذرہ بھی اس کے علم سے مخفی یا اوجھل نہیں ہے۔ اس آیتِ کریمہ کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں مذکورہ تمام اسماء ِکریمہ اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہیں ،اور یہ تمام اسماء اس امر کے متقاضی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شیٔ کا باعتبارِ زمان ،مکان، اطلاع ،اندازہ، اور تدبیر احاطہ کیئے ہوئے ہے ،وہ ذات انتہائی بلند اور تمام نقا ئص وعیوب سے پاک ہے۔
Flag Counter