’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو، سروں پر ہاتھ پھیر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔‘‘
الفرض السادس: ترتیب ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں فرائض وضو کو ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ لیکن اس پاؤں اور ہاتھوں میں ، کہ جنھیں دھونا فرض ہے، سر کا ذکر کرکے الگ کیا ہے، کہ جس پر مسح کرنا ضروری ہے۔ اور عرب کی یہ عادت ہے کہ وہ ایک جیسی چیز کو دوسری اسی جیسی چیز سے کسی فائدہ کے پیش نظر ہی الگ کرتے ہیں ۔ اور وہ فائدہ یہاں ترتیب ہے۔ آیت واجب کی وضاحت میں بیان ہوئی ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح حدیث میں عام فرمان بھی اس کی دلیل ہے : ’’وہاں سے شروع کیجئے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے۔‘‘ اور عملی سنت بھی ارکان کے مابین اسی ترتیب پر جاری ہوئی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے کہ آپ نے ترتیب کے بغیر وضو کیا ہو۔ وضو عبادت ہے اور عبادت کا دار و مدار اتباع پر ہوتا ہے۔ اس لیے کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے منقول طریقہ کی مخالف کرے بالخصوص اس کی جس پر معمول ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر ترتیب کے وضو کرنا منقول ہے، اس لیے فقہاء کے ایک گروہ کے نزدیک بغیر ترتیب کے وضو کیا جاسکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے:
((اُتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِوَضُوئٍ، فَتَوَضَّاَ، فَغَسَلَ کَفَّیْہِ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْہَہُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ ذِرَاعَیْہِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَاْسِہِ وَاُذُنَیْہِ ظَاہِرِہِمَا وَبَاطِنِہِمَا، وَغَسَلَ رِجْلَیْہِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا))
وضو کی سنتیں
کیا آپ جانتے ہیں کہ عبادات میں صرف منقول طریقہ کو اپنایا جاتا ہے، جبکہ عام معمولات زندگی میں صرف اس کام سے رکا جاتا ہے جس سے منع کیا گیا ہو، باقی ہر کام جائز
|