ہونے کا بتلاتا ہے۔
احرام کا غسل:
جو شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو جمہور کے نزدیک اس کے لیے غسل کرنا مستحب ہے۔ کیونکہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث اس کی دلیل ہے، کہتے ہیں کہ ’’ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ احرام باندھنے کے لیے ایک طرف ہوئے اور غسل کیا۔‘‘ اسے دار قطنی، بیہقی اور ترمذی نے بیان کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے اسے حسن بھی قرار دیا ہے جبکہ عقیلی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
مکہ میں داخل ہونے کا غسل :
جو شخص مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہے اس کے لیے غسل کرنا مستحب ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’وہ مکہ میں داخل ہونے قبل ذی طوی مقام پر رات گزارتے۔ پھر صبح ہوتی تو دن کے وقت مکہ میں داخل ہوتے۔ اور وہ یہ بات بھی ذکر کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی کیا کرتے تھے۔‘‘رواہ البخاری ومسلم ،یہ الفاظ مسلم کے ہیں ۔ابن منذر کہتے ہیں کہ ’’مکہ میں داخل ہوتے وقت غسل کرنا تمام علماء کے نزدیک مستحب ہے۔ ہاں اسے چھوڑنے میں فدیہ نہیں ہے۔ اکثر علماء کا کہنا ہے کہ اس سے وضو ہی کفایت کرسکتا ہے۔‘‘
ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں مکہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ تو پھر غسل کے مستحب ہونے کا استدلال کیونکر؟
عرفہ میں وقوف کا غسل:
شیخ البانی رحمہ اللہ نے تمام المنہ میں مستحب غسل کی مزید شکلیں بیان کی ہیں :
۱۔ دوبارہ سے ازدواجی تعلق قائم کرتے وقت
۲۔ مستحاضہ خاتون کے لیے ہر نماز سے قبل
۳۔ بے ہوشی کے بعد
۴۔ مشرک کی تدفین کے بعد
|