Maktaba Wahhabi

119 - 156
ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح بھی کہا ہے۔ عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ خبر پہنچی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خواتین کو غسل کے لیے بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں ۔ تو انھوں نے فرمایا کہ ابن عمر پر تعجب ہے کہ وہ خواتین کو جب وہ غسل کریں بال کھولنے کا کہتے ہیں ۔ وہ انھیں بال مونڈھ دینے کا ہی کیوں نہیں کہہ دیتے؟ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے اور میں اپنے سر پر تین دفعہ پانی بہانے سے زیادہ کچھ نہیں کیا کرتی تھی۔‘‘ رواہ احمد ومسلم۔ ایک رائے کے مطابق خاتون کے لیے غسل حیض کے لیے بال کھول کر اچھی طرح دھونا ضروری ہے۔ جبکہ غسل جنابت میں بال کھول کر دھونا ضروری نہیں ہے۔ بندھے ہوئے بالوں پر پانی کے چلو بہا لیے جائیں تو یہی کافی ہے۔ اور جب کوئی خاتون حیض یا نفاس کا غسل کرے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ شرم گاہ پر خوشبو لگائے اور اس سے گندی بو کو ختم کرے۔ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اسماء بنت یزید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل حیض کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم میں سے ایک پانی اور بیری کے پتے لے کر پاکی حاصل کرے ۔ اوراچھی طرح پاکی حاصل کرے۔ پھر اپنے سر پر پانی بہائے اور اچھی طرح رگڑے کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔ پھر اس پر پانی بہا لے۔ پھر خوشبو لگی روئی لے اور اس کے ساتھ پاکی حاصل کرے۔‘‘ اسماء کہتی ہیں کہ اس روئی کے ساتھ پاکی کیونکر حاصل کرے؟ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! اس کے ساتھ پاکی حاصل کیجئے۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یوں لگ رہا تھا کہ اس خاتون پر یہ مفہوم مخفی رہا کہ خون کے نشانات پر روئی کو لگائیے۔ اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل جنابت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’پانی لیجئے اور پاکی حاصل کیجئے اور اچھی طرح پاکی حاصل کیجئے۔‘‘ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’پانی کو (تمام جسم تک) پہنچائیے۔ پھر اپنے سر پر پانی بہا لیجئے اور اسے رگڑئیے حتی کہ وہ بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔ پھر اس پر پانی بہا لیجئے۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انصار کی عورتیں بہت اچھی
Flag Counter