پوچھتے ہیں ، فرما دیجئے کہ یہ گندگی ہے اس لیے حالت حیض میں خواتین سے علا حدہ رہیے اور ان کے پاک ہونے تک ان کے قریب بھی مت جائیے۔ تو جب وہ اچھی طرح پاک ہوجائیں تو ان کے پاس وہاں سے جاؤ جہاں سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ رجوع کرنے والوں اور بہت زیادہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’نکاح کے علاوہ ہر کام کیا جاسکتا ہے۔‘‘ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ ’’ازدواجی تعلق کے علاوہ ہر کام کیا جاسکتا ہے۔‘‘ بخاری کے علاوہ کئی محدثین نے اسے بیان کیا ہے۔
امام نووی کہتے ہیں کہ اگر مسلمان حائض سے اس کی شرم گاہ میں ازدواجی تعلق قائم کرنے کے جواز کا اعتقاد رکھے تو وہ کافر اور مرتد ہوجائے گا۔ اور اگر وہ اس کے حلال ہونے کا اعتقاد تو نہ رکھے لیکن بھول کر یا حرام ہونے سے لاعلمی کی بناء پر یا حیض کے آنے کا پتا نہ ہونے کی وجہ سے ازدواجی تعلق قائم کربیٹھے تو اس پر گناہ ہے اور نہ ہی کفارہ۔ اور اگر اسے حالت حیض کے ہونے کا اور اس کی حرمت کا علم ہو اور وہ اپنے اختیار سے ازدواجی تعلق قائم کرے تو تحقیق نے بہت بڑی معصیت کا ارتکاب کیا ہے۔ اس پر اس کام سے توبہ ضروری ہے اور کفارہ کے وجوب میں دو اقوال ہیں ان میں کا صحیح ترین یہ ہے کہ اس پر کفارہ نہیں ہے۔ پھر امام نووی لکھتے ہیں کہ دوسری قسم یہ ہے کہ وہ شخص خاتون سے ناف کے اوپر اور گھٹنوں کے نیچے مباشرت کرے یہ بالاتفاق حلال ہے۔ تیسری قسم یہ ہے کہ وہ شخص خاتون سے ناف اور گھنٹوں کے درمیان مباشرت کرے لیکن اگلی اور پچھلی شرم گاہ کے علاوہ تو امام نووی رحمہ اللہ نے حالت حیض میں کفارہ نہ ہونے کے قول کو ترجیح کیوں دی ہے؟ فریقین کے دلائل کا جائزہ لیجئے۔ اور اگر آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایسے شخص پر کفارہ ضروری ہوتا ہے تو پھر موجودہ دور میں کفارہ کتنا ہوگا؟
اکثر علماء کے نزدیک یہ کام حرام ہے۔ پھر امام نووی نے اس کام کے حلال مع الکراہت کے قول کو اختیار کیا ہے کیونکہ دلیل کے اعتبار سے یہی قول ہے (تلخیص مکمل
|