استاذ کی مدد سے دو شخصیات کے حالات زندگی کا مطالعہ کیجئے۔
جب کسی شخص نے غسل جنابت کیا اور وضو نہیں کیا تو غسل وضو کے قائم مقام ہوجائے گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے بعد وضو نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’انھوں نے ایک شخص سے کہا جس نے ان سے عرض کیا تھا کہ میں غسل کے بعد وضو کرتا ہوں ؟تو آپ نے جواب دیا کہ آپ تکلف میں پڑے ہیں ۔ ‘‘ ابو بکر بن العربی کہتے ہیں کہ علما کا اس مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے کہ وضو غسل کے تحت ہی داخل ہے۔ اور جنابت سے طہارت کی نیت حدث سے پاکی کی نیت پر آتی ہے اور اسے ختم کردیتی ہے۔ کیونکہ جنابت کے موانع حدث کے موانع سے زیادہ ہیں ۔ اس لیے کم اکثر کی نیت میں داخل ہوجائے گی۔ اور بڑی چیز کی نیت سے کافی ہوجائے گی۔
جنبی اور حائضہ کے لیے بالوں کو صاف کرنا جائز ہے۔ نیز ناخن تراشنا اور بازار میں جانا اور اس کے علاوہ دیگر کام بغیر کراہیت کے جائز ہیں ۔ عطاء کہتے ہیں کہ ’’جنبی سینگی لگوا سکتا ہے، ناخن تراش سکتا ہے اورسر منڈھوا سکتا ہے اگرچہ اس نے وضو نہ ہی کیا ہو۔‘‘ رواہ البخاری۔
کیا آپ کو معلوم ہے؟ کہ حمام میں نہانے کی شکل ایسے ہی ہوتی تھی جیسے آج کل تالاب ہوتے ہیں ۔ لوگ کسی گھر میں اکھٹے ہوتے اور وہاں نہاتے۔
حمام میں داخل میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ داخل ہونے والا شرم گاہ کی طرف سے محفوظ ہو۔ اور لوگوں کے اس کے شرم گاہ کو دیکھنے سے بھی محفوظ ہو۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ اگر آپ کو علم ہو کہ حمام میں موجود ہر شخص نے ازار پہنا ہوا ہے تو وہاں داخل ہوجائیے۔ وگرنہ داخل مت ہوئیے۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ’’کوئی شخص کسی کی شرم گاہ کی طرف نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کی شرم گاہ کی طرف دیکھے۔‘‘۔ حمام میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر حال میں پسندیدہ ہے۔ تاوقتیکہ ایسی صورت حال درپیش ہو جو اس میں رکاوٹ بنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں
|