پاک ہوجائیں تو ان کے پاس وہاں سے آؤ جہاں سے اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے۔‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ’’ نماز کو ان ایام کے بقدر چھوڑ دیجئے کہ جن میں آپ حیض سے ہوتی تھیں ۔ پھر غسل کیجئے اور نماز پڑھیے۔‘‘ متفق علیہ یہ حدیث اگرچہ حیض کے بارے میں وارد ہے مگر نفاس حیض کی طرح ہی ہے، اس بات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔ اگر خاتون کے یہاں ولادت ہو لیکن وہ خون نہ دیکھے تو یہ قول ہے کہ اس کے ذمہ غسل ہے۔ اور یہ بھی قول ہے کہ اس پر غسل نہیں ہے۔ اس بارے میں واضح دلیل بیان نہیں ہوئی۔
جدید میڈیکل کی روشنی میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نفاس اصل میں حیض ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ حمل کے بعد حیض رک جاتا ہے، اور وہ بچے کی خوراک بنتا ہے۔ اور ولادت کے بعد رکا ہوا خون جاری ہوتا ہے۔
رابع: موت: جب کوئی مسلمان فوت ہوجائے تو اس بات پر اجماع ہے کہ اس کو غسل دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کی تفصیل مناسب مقام پر بیان کی جائے گی۔
خامس: غیر مسلم جب اسلام قبول کرلے:
جب کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرلے تو اس پر غسل ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ ثمامہ حنفی قید ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت ان کے پاس جاتے تو فرماتے کہ ’’اے ثمامہ! آپ کے پاس کہنے کو کیا ہے؟‘‘ تو کہتے کہ اگر آپ قتل کریں گے تو خون والے کو کریں گے، اور اگر احسان کریں گے تو قدر دان پر کریں گے۔ اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اتنا دیں گے جتنا آپ کی چاہت ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی فدیہ چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اسے قتل کرکے کیا کریں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو وہ مسلمان ہوچکا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول دیا اور اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں بھیجا اور اسے غسل کرنے کی تلقین فرمائی۔ انھوں نے غسل کیا اور دو
|