انھیں یمن میں قاضی بھی مقرر فرمایا۔ انھیں جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتماد حاصل رہا وہاں آپ کے چاروں جانشین کے یہاں بھی انھوں نے مقام پایا۔ ان شخصیت کے بارے میں کتب رجال سے مزیدتحقیق کیجئے۔
امام شافعی کہتے ہیں کہ ’’ عرب کا کلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ حقیقت میں لفظ جنابت جماع (Intercourse) پر بولا جاتا ہے، اگرچہ اس میں انزال نہ ہی ہو۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’ بلاشبہ ہر وہ شخص جسے یہ کہا جائے کہ فلاں شخص فلاں خاتون کے ساتھ جنبی ہوگیا ہے تو یہ بات سمجھی جائے گی کہ مرد نے خاتون کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کیا ہے، اگرچہ انزال نہ ہی ہوا ہو۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ وہ زنا کہ جس پر حد لگانا واجب ہوتا ہے وہ جماع ہے، اگرچہ اس میں انزال نہ ہی ہوا ہو۔‘‘ نیز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب کوئی شخص خاتون کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے پھر اسے مشقت میں ڈالے تو غسل واجب ہے، خواہ انزال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔‘‘ اس روایت کو احمد اور مسلم نے بیان کیا ہے۔ سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں آپ سے کچھ مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں لیکن حیا مانع ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ پوچھیے اورشرمائیے مت کیوں کہ میں آپ کی ماں ہوں ۔ تو انھوں نے ایسے شخص کے بارے می ں پوچھا کہ جو ازدواجی تعلق قائم کرتا ہے، لیکن اسے انزال نہیں ہوتا۔ تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ ’’جب جب ختنے ملیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔‘‘ اسے احمد اور مالک نے مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دخول کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقت میں ہوا ہو، اس بات پر اجماع ہے کہ دخول کے بغیر محض چھونے سے کسی پر غسل واجب نہیں ہوتا۔
ثالث: حیض اور نفاس کا بند ہونا:
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ اور ان کے قریب بھی مت جاؤ حتی کہ وہ پاک ہوجائیں تو جب وہ اچھی طرح
|