بیان کرتے ہیں ۔ اور آپ سے سفیان ثوری ، شریک، شعبہ وغیرہ بیان کرتے ہیں ۔
ان کے علاوہ کچھ اور مواقع پر بھی وضو کرنا مستحب ہے۔ (۱)جب بھی کوئی شخص بے وضو ہوتو وضو کرنا۔ یعنی با وضو حالت میں رہنا۔ عثمان رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ اس کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ (۲) قے آنے کے بعد وضو کرنا۔ (۳) میت کو کندھا دینے کے بعد۔ان کی تفصیل تمام المنہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
وہ فوائد جن کی وضو کرنے والے کو ضرورت پڑ سکتی ہے۔
مباح کلام وضو کے دوران جائز ہے۔ سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو اس کی ممانعت پر دلالت کرتی ہو۔
اعضاء کو دھوتے ہوئے پڑھی جانے والی دعا باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ۔ اصل مطلوب ان دعاؤں پر بند رہنا ہے، جن کا تذکرہ وضوء کی سنتوں کے تحت گزر چکا ہے۔
اگر وضو کرنے والے کو دھونے کی تعداد میں شک گزرے تو وہ یقین پر بنیاد رکھے گا۔ اور یقینی بات کم از کم مقدار ہوتی ہے۔
موم کی طرح کی اشیاء اگر اعضاء وضو میں سے کسی عضو پر بھی رکاوٹ بنیں تو یہ وضو کو باطل کردیں گی۔ جہاں تک محض رنگ کا تعلق ہے، مثلا مہندی کے ساتھ خضاب لگانا وغیرہ تو اس سے وضو کی درستی پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ کیونکہ یہ اعضاء وضو اور پانی کے ان تک پہنچنے کے مابین حائل نہیں ہوتا۔
مستحاضہ، اور وہ اشخاص کہ جنھیں سلَس البول کا مرض ہو یا ہوا بار بار خارج ہونے یا اس کے علاوہ کوئی بیماری ہو تو ایسے افراد ہر نماز کے لیے وضو کریں گے۔ لیکن تب جب بیماری ہر وقت لاحق رہتی ہو، یا اس پر کنڑول ممکن نہ ہو۔ ان افراد کی نماز بیماری کے ہونے کے باوجود بھی درست سمجھی جائے گی۔
کسی دوسرے شخص سے وضو میں مدد لینا جائز ہے۔
وضو کرنے والے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو گرمی یا سردی میں تولیہ وغیرہ کے
|