Maktaba Wahhabi

92 - 352
سے انہیں روک کر ذلیل وخوار کردیا ،اگر چہ شرعاً انہیں ساتھ جانے کا حکم تھا،اور حسی طور پر انہیں ساتھ جانے کی قدرت بھی دے رکھی تھی، لیکن اپنی حکمت جو اس کے علم میں تھی کے پیشِ نظر انہیں ساتھ جانے کی توفیق نہیں دی۔ اس حکمت کو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں بیان فرمادیا : { لَوْ خَرَجُوا فِیْکُمْ مَازَادُوْکُمْ اِلاَّ خَبَالًا } ترجمہ:’’اگر یہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لئے سوائے فساد کے اورکوئی چیز نہ بڑھاتے‘‘ { کُبَرَ مَقْتًا عِنْدَاللّٰه اَنْ تَقُوْلُوْامِالَا تَفْعَلُوْنَ } (ا لصف: ۳) ترجمہ:’’اللہ کے ہاں بڑی ناراضگی کی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر تمہارا عمل نہیں‘‘ … شر ح … ’’ کُبَرَ مَقْتًا‘‘ یہ بات اللہ کو بہت ناراض کرنے والی ہے ، ’’اَنْ تَقُوْلُوْامِالَا تَفْعَلُوْنَ ‘‘ یعنی تم کسی نیکی کا عزم کرو پھر پورا نہ کرو ، اس آیت کے شانِ نزول میں آیا ہے کہ فرضیتِ جہاد سے قبل اہلِ ایمان میں سے کچھ لوگ کہتے تھے کاش اللہ ہمیں احب الاعمال(سب سے بہترین عمل) کی خبر دے تاکہ ہم اس پر عمل کریں ، تو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا کہ احب الاعمال، اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا ایمان لانا ہے جو ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہو،نیزایسے نافرمانوں کے ساتھ جو ایمان کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں اور اقرارنہ کرنے کی روش پر قائم ہیں ،کے ساتھ جہاد کرنا ہے۔ جب جہادکا یہ حکم نازل ہوا تو بعض مسلمانوں پر یہ حکم ناگوار اورشاق گزراتو یہ آیت نازل ہوئی۔ ان آیا ت کوذکر کرنے کا مقصد ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی صفات: الغضب(غصہ کرنا)الرضا(راضی ہونا) اللعن(لعنت فرمانا) الانتقام(بدلہ لینا) الکراھیۃ (ناپسندجاننا) الأسف(ناراض ہونا) المقت(ناراض
Flag Counter