پاک پر بھی کیا جاسکتا ہے، اور مؤمن پر بھی بولا جاسکتا ہے اور اس شخص پر بھی جس کے جسم پر نجاست نہ لگی ہو۔ اس لیے یہ حدیث حدث اصغر والے شخص کے لیے مصحف کو چھونے کی ممانعت میں واضح دلیل کی حیثیت میں نہیں ہوگی۔ باقی رہا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ:
’’قرآن مجید کو صرف مطہر ہی چھوتے ہیں ۔‘‘ (الواقعۃ: ۷۹)
تو واضح بات یہ ہے کہ اس کی ضمیر کتاب مکنون کی طرف لوٹ رہی ہے، اور اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ کیونکہ قریب مرجع وہی ہے۔ اور مطہر سے مراد ملائکہ ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہی ہے:
ان صحیفوں میں کہ عزت والے ہیں بلندی والے پاکی والے ایسوں کے ہاتھ لکھے ہوئے،جو کرم والے نکوئی والے۔‘‘ (عبس: ۱۶-۱۳)
ابن عباس، شعبی، ضحاک، زید بن علی، مؤید باللہ، داؤد، ابن حزم اور حماد بن ابی سلیمان کے نزدیک بے وضو شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ مصحف کو چھو لے۔ باقی رہا اسے بغیر چھوئے پڑھنے کا مسئلہ تو یہ بالاتفاق جائز ہے۔
وہ امور جن کی وجہ سے وضو مستحب ہوتا ہے۔
مندرجہ ذیل احوال میں وضو کرنا مستحب وپسندیدہ ہے:
اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے وقت: کیونکہ مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ’’انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کررہے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جواب نہیں دیا تاوقتیکہ وضو کرلیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ اور فرمایا کہ ’’مجھے سلام کا جواب دینے سے صرف اس بات نے روکا تھا کہ میں ناپسند کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بغیر طہارت کے کروں ۔ ‘‘قتادہ کہتے ہیں کہ پاک ہونے سے پہلے حسن اس وجہ سے قرات یا اللہ تعالیٰ کا ذکرکرنا ناپسند کرتے تھے۔‘‘ اس روایت کو احمد ، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے بیان کیا ہے۔ ابو جہیم بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم بئر جمل کی طرف سے تشریف لائے تو انھیں ایک شخص ملا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا حتی
|