﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُئُ سِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾ (المائدہ: ۶)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم نماز کی طرف کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو اپنے چہروں کو دھو لیا کرو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو۔ اور اپنے سروں کا مسح کیا کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لیا کرو۔‘‘
یعنی جب تم نماز قائم کرنے کا ارادہ کرو اور بے وضو ہو تو دھو لیجئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ بغیر پاکیزگی کے نماز قبول نہیں کرتا اور خیانت والا صدقہ قبول نہیں کرتا۔‘‘ اسے بخاری کے علاوہ جماعت نے بیان کیا ہے۔
دوم: بیت اللہ کا طواف: کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طواف نماز کی طرف ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کلام کرنا جائز رکھا ہے۔ اس لیے جو شخص بات کرنا چاہے تو وہ صرف اچھی بات ہی کرے۔‘‘ اسے ترمذی اور دار قطنی نے بیان کیا ہے جبکہ حاکم، ابن سکن اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
سوم: مصحف کو چھونا: کیونکہ ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم اپنے باپ سے وہ اپنے دادا رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کی طرف خط لکھا اور اس میں یہ بھی تھا کہ ’’قرآن مجید کو صرف طاہر شخص ہی چھوئے۔‘‘ اسے نسائی، دار قطنی، بیہقی اور اثرم نے بیان کیا ہے۔ ابن عبد البر اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ روایت تواتر کی طرح ہے کیونکہ لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’قرآن مجید کو صرف طاہر شخص ہی چھوئے۔‘‘ اسے ہیثمی نے مجمع الزوائد میں بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ’’اس کے راوی ثقہ ہیں ۔‘‘ گویا یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ مصحف کو چھونا صرف اس شخص کے لیے جائز ہے جو پاک ہو ۔ لیکن طاہر لفظ مشترک المعنی ہے۔ یہ حدث اکبر سے پاک پر بھی بولاجاسکتا ہے، اور اس کا اطلاق حدث اصغر سے
|