Maktaba Wahhabi

85 - 156
وضو کرنے والے کا بے وضو ہونے کے بارے میں شک میں پڑنا: جب پاکی حاصل کرنے والے کو شک ہو کہ آیا وہ بے وضو ہے یا نہیں ؟ تو اسے یہ شک نقصان نہیں دے اور اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔ خواہ وہ نماز میں ہو یا نہ، تاوقتیکہ اسے بے وضو ہونے کا یقین نہ ہوجائے۔ عباد بن تمیم اپنے چچا رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ایک شخص کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فریاد رکھی گئی کہ اسے خیالات آتے رہتے ہیں کہ وہ دوران نماز کچھ محسوس کرتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ وہ نماز سے صرف اس وقت ہٹے گا جب وہ آواز سن لے یا بو سونگھ لے۔‘‘ اس روایت کو ترمذی کے علاوہ جماعت نے بیان کیا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ ’’ جب آپ لوگوں میں سے کوئی اپنے پیٹ میں کوئی چیز محسوس کرے اور اسے اشکال ہو کہ آیا پیٹ سے کچھ نکلا ہے یا نہیں ۔ تو وہ مسجد سے نہ نکلے تاوقتیکہ وہ آواز سن لے یا بو پالے۔‘‘ اسے مسلم، ابو داؤد اور ترمذی نے بیان کیا ہے۔ یہاں سے محض آواز سننا اور بو پانا مراد نہیں بلکہ اس بات پر اعتماد ہے کہ پیٹ سے کچھ نکلنے کا یقین ہو۔ ابن مبارک کہتے ہیں کہ جب اسے بے وضو ہونے کے بارے میں شک ہو تو اس پر وضو اس وقت تک ضروری نہیں ہے کہ اسے اتنا یقین ہو کہ وہ اس پر قسم کھا سکے۔ ہاں جب اسے بے وضو ہونے کا یقین ہو اور طہارت کے بارے میں شک ہو تو پھر اس پر وضو ضروری ہے۔ اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ دوران نماز کھلکھلا کر ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ اس بارے میں وارد روایات صحیح نہیں ہیں ۔ میت کو غسل دینے سے وضو واجب نہیں ہوتا کیونکہ وضو توڑنے والی روایت ضعیف ہے۔ وہ امور جن کی وجہ سے وضو ضروری ہوتا ہے۔ وضو تین امور کی وجہ سے ضروری ہوتا ہے: اول: کوئی بھی نماز، فرض ہو یا نفل، خواہ نماز جنازہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ
Flag Counter