سناؤ۔ میں نے عرض کی یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو قرآن مجید نازل ہوتا ہے۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ ’’ ہاں سناؤ ‘‘چنانچہ میں نے سورۂ نساء پڑھی جب میں آیت :
فَکَیْفَ اِ ذَ ا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُ مَّۃٍ بشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلَا ئِ شَھِیْدً ا
(ترجمہ) ’’پس کیاحالت ہوگی جب ہم ہر امت سے گواہ لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سب پر گواہ بنائیں گے ‘‘ (4:41) پر پہنچا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب بس کرو۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
﴿وضاحت :آیت شریفہ کو سن کر مذکورہ قیامت کا منظر آنکھوں میں سما گیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آبدیدہ ہوگئے۔ تلاوت ِقرآن کریم کا یہی تقاضہ ہے کہ موقع و محل کے لحاظ سے آیاتِ قرآن کا پورا پورا اثر لیا جائے۔ اﷲ پاک ہم کو ایسی ہی توفیق بخشے(آمین) اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دو سروں سے قرآن مجید کی تلاوت سننا بھی مسنون ہے﴾
618۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس مومن کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور اس پر عمل پیرا رہتا ہے نارنگی کی سی ہے جس کی خوشبو بھی عمدہ اور ذائقہ بھی عمدہ ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن کی تلاوت نہیں کرتا مگر اس پر عمل کرتا ہے کھجور کی سی ہے کہ اسکا ذائقہ تو اچھا ہے لیکن خوشبو نہیں ہے اور جو منافق قرآن پڑھتا ہے اس کی مثال گل ببونہ(پھول)کی سی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن مزا کڑوا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن بھی نہیں پڑھتا اندرائن کے پھل کی طرح ہے جس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا بھی کڑو ا ہے۔‘‘ (عن ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ )
619۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قرآن مجید کو اس وقت تک پڑھو جب تک تمہارا دل اور زبان ایک دوسرے کے مطابق ہوں اور جب دل اور زبان میں اختلاف(گھبراہٹ) ہوجائے(اس وقت) پڑھنا چھوڑ دو ‘‘ (عن جندب بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ)
|