Maktaba Wahhabi

66 - 292
ہے کہ، ’’رواہ البخاری‘‘ یا ’’رواہ مسلم‘‘ ان روایات میں کہیں کہیں الفاظ اور معانی کا معمولی فرق پایا جاتا ہے۔[1] چناں چہ ’’رواہ البخاری و مسلم‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ بخاری اور مسلم میں اس حدیث کی اصل مروی ہے۔ (گو الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ ہی ہو)۔ د:… کیا ہمارے لیے یہ بات جائز ہے کہ ہم کتبِ مستخرجات میں سے ایک حدیث نقل کرکے اسے صحیحین کی طرف منسوب کر دیں ؟ گزشتہ مذکورہ تفصیل کی بنا پر کسی شخص کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ مستخرجات سے یا ان کتب سے جن کا ابھی تعارف گزرا ہے، ایک حدیث نقل کرے اور پھر یہ کہے، ’’اس کو بخاری یا مسلم نے روایت کیا ہے‘‘ البتہ اگر دو میں سے ایک بات پائی جائے تو پھر ایسا کہہ سکتے ہیں: ۱۔ جب مستخرجات کی حدیث کا صحیحین کی روایت سے موازنہ کرلیا جائے۔ ۲۔ یا مستخرج کا مصنف یہ کہے: ’’شیخین نے اس روایت کو انہی لفظوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔‘‘[2] ھ:… ’’المستخرجات علی الصحیحین‘‘ کے فوائد: صحیحین پر مستخرجات کے تقریباً دس فوائد ہیں ( جو حضرات محدثین نے شمار کروائے ہیں ) علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’تدریب الراوی ج ۱ ص۱۱۵۔۱۱۶‘‘ میں ان کو مفصّل ذکر کیا ہے۔ ہم ان میں سے چند اہم فوائد کو قارئین کی نذر کرتے ہیں : ۱۔ علوِّ اسناد:…(یعنی کم واسطوں سے کسی حدیث کا نقل کرنا) کیوں کہ ’’مستخرج‘‘ کا مصنف اگر مثلاً کسی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ کے واسطے سے نقل کرے تو (اس کے واسطے زیادہ ہو جائیں گے اور) وہ اس طریق سے نیچے چلا جائے گا۔ جس سے اس نے حدیث کو ’’مستخرج‘‘ میں روایت کیا تھا۔ ۲۔ صحیح حدیث کی ’’مقدار‘‘ میں اضافہ:… وہ اس طرح کہ بعض احادیث میں زائد الفاظ اور تکملہ آجاتا ہے (جس سے حدیث کی افادیت میں اضافہ ہو جاتا ہے)۔ [3] ۳۔ کثرتِ طرق کی بنا پر روایت کی قوت:… اور کثرت طرق سے قوت کا فائدہ معارضہ کے وقت اس روایت کا راجح ہونا ہوتا ہے۔[4]
Flag Counter