کراکے اس بحث کو ختم کردیا اور ان سب باتوں کو آسان عبارت اور ہر قسم کی پیچیدگی اور ابہام کے بغیر واضح علمی اسلوب میں پیش کیا اور ’’کلیات الشریعۃ‘‘ اور ’’کلیات الدراسات الاسلامیہ‘‘ میں ’’علم مصطلح الحدیث و علومہ‘‘ کے لیے مقرر کیے گئے مختصر تعلیمی دورانیے کی رعایت کرتے ہوئے میں نے اپنی اس کتاب میں نہ تو کثرت کے ساتھ اختلافات کو پیش کیا، نہ اقوال کا انبار لگایا اور نہ مسائل و مباحث کے دائرے کو حدضرورت سے زیادہ ہی پھیلایا۔
میں نے اس کتاب کا نام ’’تیسیر مصطلح الحدیث ‘‘ رکھا ہے۔ اس کتاب کو لکھ کر میرا یہ خیال ہر گز نہیں کہ میری یہ ادنیٰ کاوش طالبانِ علومِ حدیث کو اس فن میں لکھی اسلاف متقدمین کی بیش بہا قیمتی کتب اور ان کے علمی گنج گراں مایہ سے بے نیاز کردے گی، بلکہ میرا ارادہ تو فقط اس حد تک ہے کہ میری یہ کتاب ’’اس قیمتی علمی خزانے‘‘ کے لیے چابی، ان کے بلند پایہ مضامین کو یاد دلانے والی اور ان کے اعلیٰ معانی تک پہچانے کو آسان بنانے والی ثابت ہو جبکہ ائمہ عظام اور علماء متقدمین کی کتب اسی شان کے ساتھ علماء اور اس فن کے فضلاء و ماہرین کے لیے بنیادی ماخذ اور چشمۂ فیض بن کر تاحیات باقی ہیں ۔ جس سے وہ اپنی علمی پیاس بجھاتے اور سیراب ہوتے رہیں ۔
اور اس بات کا ذکر بھی ناگزیر ہے کہ اخیر زمانہ میں بعض محققین کی کتب سامنے آئی ہیں جو بے شمار علمی فوائد پر مشتمل ہیں ۔ خصوصاً ان میں مستشرقین اور دین بیزار لوگوں کے واہی تباہی اعتراضات کے شافی جوابات ہیں ، البتہ ان میں سے بعض کتب اگر بے حد طوالت کی حامل ہیں تو بعض میں حد درجہ کا اختصار ہے، جب کہ بعض کتب میں جملہ مباحث کا استیعاب نہیں ۔ اسی لیے میں نے اس بات کا عزم کیا کہ میری یہ کتاب تطویل و اختصار کے درمیان ایک معتدل اور جملہ مباحث پر مشتمل کتاب ہو، اپنی اس کتاب میں میری جدید کاوشوں کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ التقسیم:
میں نے ہر بحث کو چند نمبروار جملوں میں تقسیم کیا ہے۔ جس سے طالب علم کو اس بحث کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔[1]
۲۔ ہر بحث کو مکمل ذکر کرنا:
یعنی کسی بحث کے بنیادی اور عمومی ڈھانچہ کو مکمل ذکر کرنے کے اعتبار سے پہلے میں نے اس کی تعریف بیان کی۔
|