آدم کی شعبہ سے روایت۔[1]
ب: …(دوسری صورت یعنی) وسطِ حدیث میں ادراج واقع ہونے کی مثال: (اس کی مثال) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جو ابتدائے وحی کے بارے میں (زبانِ زد خلائق) ہے کہ :
’’کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَحَنَّثُ فِیْ غَارِ حِرَائَ ۔ وَھُوَ التَّعَبُّدُ ۔ الَّلیَالیَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ‘‘[2]
’’(وحی کی ابتداء سے پہلے) جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں کئی کئی راتوں تک تحنّث ، یعنی عبادت فرمایا کرتے تھے۔‘‘
اس روایت میں ’’وھو التَّعَبُّدُ‘‘ کے الفاظ زہری کا کلام ہے جو حدیث (کے وسط) میں درج ہو گیا ہے (جو بظاہر حدیث کا ایک ٹکڑا لگتے ہیں مگر امام زہری اس سے ’’تحنّث‘‘ کی تشریح کر رہے ہیں )۔
ج: …(تیسری صورت یعنی) حدیث کے آخر میں ادراج واقع ہونے کی مثال: حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے:
’’لِلْعَبْدِ الْمَمْلُوْکِ اَجْرَانِ ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْلَا الْجِھَادَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، وَالْحَجُّ ، وَ بِرُّ اُمِّیْ، لَاَحْبَبْتُ اَنْ اَمُوْتَ وَاَنَا مَمْلُوْک‘‘[3]
’’مملوک غلام کو دو اجر ملتے ہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر جہاد فی سبیل اللہ، حج بیت اللہ اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرنا نہ ہوتا تو میں غلام بن کر مرنا پسند کرتا۔‘‘
اس حدیث میں ’’والذی نفسی بیدہ‘‘ سے لے کر آخر تک کا ٹکڑا حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا کلام ہے۔ کیوں کہ لسانِ نبوت سے ایسے کلام کا صدور ناممکن ہے کیوں کہ جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام بننے کی تمنا کرنا محال ہے۔ دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ بھی اس دارِ فانی سے رحلت فرما چکی تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے۔
|