Maktaba Wahhabi

116 - 292
ثقہ راوی سے حدیث روایت کر رہا ہوتا ہے۔ اور وہ اس حدیث پر صحت کا حکم لگادیتا ہے (کہ اس اسناد میں سب رواۃ ثقہ نظر آتے ہیں ) یقینا (ایسی اسناد میں اور) اس تدلیس میں (جو تدلیسِ تسویہ کے نام سے معروف ہے) دوسروں کو (یعنی قارئین حدیث کو) شدید دھوکا دینا ہے۔ ب: …مشہور مدلِّس دو ہیں : (۱)بقیّہ بن ولید: ان کے بارے میں ابو مسہر کہتے ہیں ، ’’بقیہ کی احادیث صاف نہیں ہیں ‘‘ ان سے بچ کر رہو۔ [1] (۲)ولید بن مسلم ج:… تدلیس تسویہ کی مثال: اس کی مثال وہ حدیث ہے جو ’’ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے ’’العلل‘‘ میں روایت کی ہے، ابن ابی حاتم فرماتے ہیں : ’’میں نے اپنے والد کو سنا آگے ابن ابی حاتم کے والد اس حدیث کو ذکر کرتے ہیں جو اسحاق بن راہویہ نے بقیہّ سے روایت کی ہے کہ بقیّہ کہتے ہیں کہ مجھے ابو وہب اسدی نے نافع سے، وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں ’’کسی آدمی کے اسلام کی تعریف مت بیان کرو یہاں تک کہ اس کی رائے کی پختگی کو جان لو۔‘‘ (ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ یہ حدیث بیان کرکے) میرے والد کہتے ہیں ، ’’اس حدیث میں ایک ایسی بات اور کمزوری ہے جو کم ہی لوگوں کو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اس حدیث کو ’’عبید اللہ بن عمرو رحمہ اللہ نے ‘‘ ’’اسحاق بن ابی فروۃ‘‘ سے، انہوں نے ’’نافع‘‘ سے، انہوں نے حضرتِ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے۔ مذکورہ عبید اللہ بن عمرو کی کنیت ’’ابو وھب‘‘ ہے جو قبیلہ ’’بنی اسد‘‘ سے نسبت کی وجہ سے ’’اسدی‘‘ کہلاتے ہیں ۔ پس یہاں بقیّہ نے عبید اللہ بن عمرو (کا جو ثقہ راوی ہیں ، نام ذکر کرنے کی بجائے ان) کی کنیت ذکر کی ہے اور انہیں بنی اسد کی طرف منسوب کیا ہے تاکہ وہ پہچانے نہ جاسکیں ۔ یہاں تک کہ جب بقیّہ نے (اسناد سے ضعیف راوی) ’’اسحاق بن ابی فروۃ‘‘ کو ترک کیا تو (بھی) وہ نہ پہچانے جاسکے۔‘‘[2]
Flag Counter