جو پڑھ رہا ہے اسے اپنے شیخ پر پیش کر رہا ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ طالب علم بذاتِ خود شیخ پر اپنے حافظے یا کتاب سے پڑھے یا کوئی دوسرا پڑھے اور یہ سماع کر رہا ہو۔
نیز برابر ہے کہ جو شیخ پر پڑھا جارہا ہے وہ اس کا حافظ ہو یا اس نے اپنی اصل کتاب اپنے پاس روکی ہو (یعنی سامنے رکھی ہو) یا شیخ کے علاوہ کسی دوسرے ثقہ آدمی نے اسے پکڑا ہو۔ ایسی لی گئی حدیث کو آگے ادا کرتے وقت کہا جائے گا ’’قَرَأتُ، اَوْ قُرِیَٔ عَلٰی فُلَانٍ وَاَنَا اَسْمَعُ‘‘ (میں نے فلاں پر پڑھا یا فلاں پر پڑھا جارہا تھا اور میں سن رہا تھا۔)
ایسے راوی کے لیے مذکورہ سماع کے صیغوں کے ساتھ تعبیر کرنا جائز ہے بشرطیکہ قراء ت کی قید لگا دے مطلق نہ ہو جیسے: ’’حَدَّثَنِیْ فُلَانٌ قِرَائَ ۃً عَلَیْہِ‘‘ (مجھے فلاں نے حدیث بیان کی اس حال میں کہ اس پر پڑھا جارہا تھا۔)
کیا عرض شیخ کے الفاظ سننے کے برابر ہے یا اس سے رتبہ میں کم یا زیادہ ہے؟ اس کے متعلق کئی اقوال ہیں جن میں سے راجح ترین یہ ہے کہ سماع زیادہ بلند ہے (اس کی دلیل یہ ہے کہ) اس میں بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرنا ہے کیونکہ آپ لوگوں پر قرآن پڑھا کرتے اور انہیں سنتیں سیکھایا کرتے تھے۔
٭٭٭
|