محدث العصر ابرا ھیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’ ۱۳۱۶ھ میں جب یہ عاجز اپنے اور پنجاب کے استاد جناب حاٖفظ عبد المنان صاحب مر حوم وزیر آبادی کی معیت میں پہلی بار حضرت میاں صاحب مر حوم( سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ ۔ از ناقل) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ تو آپ نے ان ایام میں ایک دن مسجد میں آکر فرمایا : آج رات اس کمبخت نے ہم کو سونے نہیں دیا ۔ کبھی اس طرف پاؤں آ دباتا اور کبھی اس طرف سے ۔ اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ جو جن آپ کا شاگرد تھا وہ رات کے وقت آپ کے پاؤں کو دبا یا کرتا تھا۔‘‘
(تاریخ اہلحدیث : ۴۸۳)
ایک دفعہ استاد محترم حافظ شریف حفظہ اللہ کو اطلاع ملی کہ آپ کے استاد محترم مولا نا عبد الحمید ہزاروی حفظہ اللہ تشریف لے آتے ہیں تو حافظ شریف صاحب جلدی سے دفتر سے نکلے اور باہر کی طرف گئے اس حال میں کہ اّپ نے جوتا بھی نہیں پہنا انھیں ملے مسجد میں جب ہزاروی صاحب نے جوتا اتارا تو استاد محترم شریف صاحب نے وہ جوتا خود اٹھا یا اور آگے دفتر کے پاس رکھ دیا ۔ راقم الحروف کا تجربہ ہے کہ اساتذہ کے جو توں کو غائبانہ صاف کرنے سے خوشی اور راحت ملتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر طالب علم کو اپنے اساتذہ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شیخنا الامام حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :حافط عبداللہ محدث روپڑی نے ایک دفعہ قصہ سنایا کہ میں گوجرانوالا جمعہ پڑھانے گیا راستے میں کچھ لیٹ ہو گیا جب مسجد میں پہنچا تو دوسری اذان ہو چکی تھی اور منبر پر حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرماتھے جب انھوں نے مجھے دیکھا تو احتراما نیچے اتر آئے اور کہنے لگے اب حافظ صاحب آچکے ہیں اب جمعہ وہی پڑھائیں گے ۔ان کی موجودگی میں میرا منبر پر بیٹھنا مناسب نہیں
|