۳۔ حضرت مجاہد تفسیر قرآن کے ممتاز اور مشہور عالم ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر مجاہد انکی تفسیری بلند پر وازیوں پر بے حد مسرور ہوتے اور حضرت مجاہد کی سواری کا رکاب تھامتے اور اسی کو اپنے لئے وجہ شرف سمجھتے حضرت مجاہد کا خود اپنا بیان ہے۔’’ ربما اخذ نی ابن عمر باالر کاب ۔‘‘بسا اوقات سیدنا ابن عمر نے میری سواری کی رکاب پکڑی ۔
( تذکرۃالحفاظ ، ج ا : ۸۶)
۴۔ امیرلیث بن سعد والی مصر امام ازہری کے رکاب کو تھامتے تھے۔ ( آداب ِ الشریعہ : ۲۵۶)
۵۔ امام زہری رحمہ اللہ اپنے استاد عبید اللہ بن عمر کی خد مت کرتے ، کنویں سے پانی نکال کر انکے کھیتوں کو سینچا کرتے ۔
(تذکرۃ الحفاظ : ۷۴)
۶۔ حضرت امام ابو حنیفہ اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان کی مختلف خدمات انجام دیتے کبھی ان کے گدّے کی روئی دھنتے کبھی بازار سے سبزی ترکاری اور گوشت وغیرہ خرید لاتے ۔ اسی طرح کے اور بہت سے کام کرتے ۔ ( مقدمہ نصب الرایہ : ۴۰۴)
۷۔ عارف بااللہ محدث ابراھیم حزلی کی تعظیم و تکریم کا واقعہ یا قوت ا لحموی نے معجم الا دباء میں نقل کیا ہے کہااسماعیل بن اسحاق قاضی ،وقت کے محدث یگانہ ابرا ھیم کو ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ وہ قاضی مملکت اور وہاں دربانوں کو ہٹا کر آپ کو بصد اشتیاق بلا لیا ۔ امام ابراھیم پہنچے ،جوتا اتار کر فرش پر چلنے لگے تو قاضی صاحب حسنِ عقیدت سے ان کے جوتوں کو اٹھا کر ایک ریشمی کپڑے میں رکھ لیا ۔
تھوڑی دیر کے بعد جب امام صاحب واپس ہونے لگے تو قاضی صاحب نے ریشمی کپڑے سے ان کا جوتا نکال کر پیش کیا ۔ امام ابرا ھیم نے ا نکی عقیدت کا یہ حال دیکھا تو فرمایا :’’غفرانکٰ اللّٰہ کمااکرمت العلم۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تکریم ِ علم کے سبب آپ کی مغفرت فرمائے ۔۔۔۔آمین ثم آمین۔ ( علمائے دین اور أمراء اسلام : ۹۹۔۱۰۱)
|