محمد بن حنفیہ سے روایت ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی کہ عائشہ مقامِ مربد میں عثمان کے قاتلوں پر بد دعا کر رہی ہیں تو آپ نے اپنے ہاتھوں کو بلند کیا یہاں تک کہ چہرے تک لے گئے اور فرمایا: ’’میں اونچی اور نیچی زمین میں یعنی ہر جگہ عثمان کے قاتلوں پر لعنت کرتا ہوں ۔ آپ نے یہ بات دو یا تین مرتبہ کہی۔‘‘ [1]
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان گہرے تعلقات پر دلالت کرنے والی اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ہے کہ سیّدنا علی نے اپنی دختر ام کلثوم کی شادی سیّدنا عمر بن خطاب کے ساتھ کر دی، جیسا کہ تراجم، تاریخ، سیرت، حدیث اور فقہ کی کتابوں میں یہ روایت ہے۔[2]
تاریخی کتابوں کے مطابق سیّدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی مالک اشتر نخعی[3] شیخین سیّدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہیں : ’’اما بعد! اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عزت سے سرفراز کیا، پس انہوں نے امت کو مجتمع کیا اور لوگوں پر غالب کیا، جب تک اللہ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے، پھر اللہ عزوجل نے ان کو اپنی خوشنودی اور اپنی جنتوں کی طرف منتقل کیا، پھر آپ کے بعد صالح لوگ خلیفہ بنے جنہوں نے اللہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا، اللہ ان کو بہترین اعمال کا بدلہ عطا فرمائے۔‘‘ [4]
|