Maktaba Wahhabi

71 - 534
’’ اس بارے میں اصل یہ ہے کہ انسانوں پر معاملات میں سے انہیں جس کی ضرورت رہتی ہے صرف وہی معاملات حرام ہوں گے جن کی حرمت پر کتاب و سنت میں سے دلیل قائم ہو جس طرح کہ عبادات جو ان کے لئے حصول تقرب الہٰی کا ذریعہ ہیں صرف وہ عبادات مشروع ہوں جن کی مشروعیت پر کتاب و سنت سے دلیل قائم ہو ۔ اس لئے کہ دین وہ ہے جسے اللہ شریعت قرار دے اور حرام وہ ہے جسے اللہ حرام قرار دے‘‘۔ تاہم یہ ایک نازک مقام ہے شریعت میں ملائمت اورمرونت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے موم کی ناک بنا لیا جائے اور باب الحيل چوپٹ کھول دیا جائے ۔مولانا و مخدومنا عطاء اللہ الحنیف محدث بھوجیانی رحمہ اللہ کی ایک طویل عبارت بطور تبرک نقل کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اس سے بہتر اس مسئلہ کی وضاحت مشکل ہے ۔ اور یہ’’خير الکلام ما قَلَّ و دَلَّ‘‘کی بہترین مثال ہے مولانا تحریر فرماتے ہیں : ’’ دراصل یہ مسئلہ بڑا ہی نازک ہے بلاشبہ اس کی افادیت بہت زیادہ ہے لیکن مفاد پرست سیاست باز اپنی ہر بے دینی ، عیاشی اور اقتصادی بے راہ روی کے لئے اس کو استعمال بھی کرسکتے ہیں چناچہ اسلامی ممالک کے الحاد پسند نہایت ہوشیاری سے ’’ صلاح و فلاح ملت ‘‘ اور ’’ روح اسلام ‘‘ کے لیبل لگا کر اسی اصول کی روشنی کی آڑ میں مفادی اور ظالمانہ سیاست کے لئے کھاد مہیا کر رہے ہیں ۔ قاتلھم اللّٰہ انی یوفکون ! حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس نزاکت کو شدید طور پر محسوس فرمایا ۔۔۔۔ اور لکھا ہے "هذا موضع مزلة الأقدام مضلة أفهام و هو مقام ضنک فی معترک صعب فرط فيه طائفة فعطلوا الحدود و ضيعوا الحقوق و جرأوا أهل الفجور علی الفساد۔۔۔۔۔۔ و افرط فيه طائفة فسوغت منه ما يناقض حکم اللّٰه ". [1] ترجمہ:’’یہ ایسا مقام ہےجہاں پاؤں پھسلتےہیں اور عقلیں گمراہ ہوتی ہیں یہ تنگنائی اورانتہائی دشوار گذارکشمکش ہے کچھ لوگوں نے تفریط سے کام لیا تو حدود کو معطل کرنے، حقوق کے ضیاع کا سبب بنے اور انہوں نے اہلِ فجور کی حوصلہ افزائی کی۔۔۔جبکہ ایک گروہ افراط کا شکار ہوا انہوں نے ایسا تشدد روا
Flag Counter