سے جا چکے تھے۔(السیر: ص ۲۵۹ ج ۷)
اندازہ کیجئے،باغ کی مزدوری میں اس کی کھجور تک نہیں چکھی،کہ مزدور کی ذمہ داری باغ کی حفاظت ہے کھجوریں کھانا نہیں۔
اسی نوعیت کا ایک واقعہ علامہ الذھبی رحمہ اللہ نے امام ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ کے بارے میں نقل کیا ہے،کہ شام میں وہ ایک باغ کی حفاظت پر مامور تھے،ایک روز ان سے کہا گیا: کہ انار لائیں،تو آپ انار لے آئے،مگر وہ ترش نکلے،ان سے کہا گیا: کہ آپ ہمارے باغ کا پھل کھاتے ہیں،مگر تا حال آپ کو یہ معلوم نہیں کہ میٹھے انار کا درخت کونسا ہے اور ترش کا کونسا،امام ابراہیم رحمہ اللہ نے فرمایا: واللّٰہ ما ذقتھا اللہ کی قسم میں نے انہیں نہیں چکھا۔(السیر: ص ۳۹۶ ج ۷)
۵۔ امام ابوالفتح رحمہ اللہ محمد بن عبدالباقی المتوفی ۵۶۴ جن کا لقب مسند عراق تھا،خودان کا بیان ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا،ایک دن یہ صورت پیش آئی کہ کھانے کے لئے میرے پاس کچھ نہ تھا،بھو ک سے حالت نڈھال ہوتی چلی گئی،اسی حال میں جا رہا تھا کہ سامنے ایک بٹوا راستہ میں ملا،یہ بٹوا ریشم کا تھا،اور ریشم کی ڈوری سے بندھا ہوا تھا،اپنے مکان پر لاکر جب کھولا تو دیکھا موتیوں کا ہار اس میں رکھا ہوا ہے ایسے مو تی میں نے زندگی میں نہیں دیکھے تھے،میں نے اسی حال میں اسے رکھ دیا،مکان سے باہر نکلا،تو ایک شخص پکار رہا تھا،میرا بٹوا جس میں موتیوں کا ہار تھا گم ہوگیا ہے،جو صاحب اس کا پتہ دیں گے ان کو پانچ سو اشرفیاں بطور انعام دوں گا،یہ دیکھ کر میں نے اس کو بلایا،اور اسے ساتھ لیکر مکان پر آیا،اس سے بٹوا کے ڈورے اور موتیوں کی تعداد وغیرہ دریافت کی اس نے جو کچھ بتایا،اس بٹوے اور ہار میں ساری علامتیں پائی جاتی تھیں،تب میں نے وہ بٹوا اس کے حوالے کردیا،وہ بڑا ممنون ہوا،اور حسب وعدہ پانچ صد اشرفیاں مجھے دینے لگا،مگر میں نے شکریہ کے ساتھ وہ واپس کردیں،اس نے اصرار کیا،تو بھی میں نے لینے سے انکار کردیا‘ امام محمد بن عبدالباقی رحمہ اللہ کی امانت و دیانت کی یہ داستان تو خیر معمولی قصہ ہے،وہ چاہتے تو موتیوں کے اس ہار کو دبانے کے لئے فقہی حیلوں کا سہارا لے سکتے تھے،مگر انہوں نے تو پانچ سو
|