اشرفیاں بھی قبول کرنے سے انکار کردیا،معلوم یوں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ عملا بہت پسندآیا،جس کے نتیجہ میں کیا ہوا،اصل سبق آموز داستاں یہیں سے شروع ہوتی ہے۔خود شیخ موصوف کا بیان ہے کہ کچھ روز بعد میں مکہ مکرمہ سے روانہ ہوا،کشتی پر سوار ہوکر جا رہا تھا،کہ سمندر میں طوفان اٹھا،کشتی ٹوٹ پھوٹ گئی،اکثر مسافر ڈوب گئے،میں ایک تختہ پر بیٹھ کر سمندر کے کنارے ایک جزیرہ میں پہنچ گیا،وہاں لوگوں کے پاس گیا،وہ مسلمان تھے،وہاں مسجد میں جا ٹھہرا،نمازی نماز کے لئے آئے،تو مجھ سے حال دریافت کیا،جو گزری تھی بیان کی لوگ مجھ سے مانوس ہوگے،انہوں نے مجھ سے پڑھنا شروع کردیا،انہیں معلوم ہوا کہ میں لکھنا بھی جانتا ہوں،تو وہ اپنے بچوں کو لیکر میرے پاس آئے کہ انہیں لکھنا سکھائیں،وہ مجھ سے اس قدر مانوس ہوئے کہ میری شادی کی فکر کرنے لگے۔چنانچہ وہ میرے پاس آئے اور کہا: کہ ہمارے یہاں ایک مالدار یتیم لڑکی ہے،تم سے بہتر اور کوئی شوہر نہیں ہوسکتا،اس لئے ہماری رائے ہے کہ اس لڑکی سے آپ نکاح کرلیں،بالآخر اس لڑکی سے عقد نکاح ہوگیا،جب خلوت میں بیوی سے ملا تومیری حیرت کی انتہا ہوگئی،کہ موتیوں کا وہ ہار جو بٹوا میں ملا تھا وہ بعینہٖ اس کے گلے میں ہے،میں نے اس ہار کے بارے میں پوچھا،تو اس نے بتلایا کہ وہ اس حاجی کی بیٹی ہے جس کا ہار گم ہوگیا تھا،اس نے واپس گھر آکر ہار گم ہونے کا سارا قصہ ذکر کیا اور کہا جس شخص سے یہ ہار مجھے واپس ملا ایسا مسلمان میں نے دنیا میں نہیں دیکھا،کاش اس شخص سے میری دوبارہ ملاقات ہوتی تو اپنی لڑکی سے اس کا نکاح کردیتا،مگر اسی دوران میں وہ فوت ہوگیا اس لڑکی کے علاوہ اس کی اور کوئی اولاد نہ تھی،وہی اس کی وارث ہوئی،شیخ فرماتے ہیں : کہ میری اس بیوی کے بطن سے اولاد بھی ہوئی بیوی انتقال کرگئی،کچھ دن بعد میرے وہ بچے بھی وفات پاگئے،اور یوں گھوم گھما کر یہ ہار میرے قبضہ میں آیا،جسے میں نے ایک لاکھ اشرفیوں سے فروخت کیا۔شیخ فرماتے ہیں : کہ میرے پاس جو کچھ مال و متاع ہے یہ اس ایک لاکھ دینار سے حاصل شدہ ہے۔
(ذیل طبقات الحنابلہ لابن رجب :ص ۱۹۶،۱۹۸ ج ۱،شذرات الذھب :ص ۱۱۱ ج۴)
|