جس کسی نے ان کو کھایا ہے وہی جانتا ہے،مالک نے کہا آپ نے اب تک کوئی انار نہیں کھایا؟ انہوں نے فرمایا: آپ نے میرے ذمہ باغ کی حفاظت اور نگہبانی لازم کی ہے،کھانے اور چکھنے کی اجازت نہیں دی،میرے ذمہ جو خدمت لازم ہے اسے ہی بجا لاتا ہوں،مالک ان کی اس دیانت و امانت پر نہایت خوش ہوا،اور کہا: کہ تم اس قابل ہو کہ میری مجلس میں رہو،اور باغبانی کسی دوسرے کے سپرد کردی۔ایک روز مالک نے اپنی نوجوان بیٹی کے نکاح کے بارے میں ان سے مشورہ کیا تو مبارک نے فرمایا: جاہلیت کے عرب تو اپنی لڑکی کا نکاح حسب و نسب کے اعتبار سے کرتے تھے،یہود مال کے عاشق ہیں اور نصاریٰ حسن و جمال پر فریفتہ ہوتے ہیں،مگر اسلام میں دین کا اعتبار ہے،ان چاروں میں سے جو پسند خاطر ہواس پر عمل کریں،مالک کو ان کی یہ عاقلانہ بات پسند آئی گھر جاکر بیوی سے یہ مشورہ ذکر کیا اور کہا: کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی لڑکی کا نکاح مبارک سے کردوں اگرچہ وہ غلام ہے مگر پرہیز گاری‘ تقوی اور دینداری کے اعتبار سے اپنے زمانہ کا سردار ہے،بیوی نے اسے پسند کیا تو بیٹی کا نکاح حضرت مبارک رحمہ اللہ سے کردیا،اسی لڑکی کے بطن سے امام عبداللہ رحمہ اللہ پیدا ہوئے،اور اس تاجر کی وراثت سے بہت سا مال ان کو ملا۔(بستان المحدثین) امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے زمانہ واقف ہے،تفسیر،حدیث،فقہ،زہدو ورع،امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے پاسبان تھے امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے: کہ وہ امیر المومنین فی الحدیث ہیں،حکومت وقت کے ساتھ اختلاف ہوا تو کوفہ سے بصرہ کا رخ کیا،وہاں ایک باغ میں مزدوری کرلی عشر وصول کرنے والے حاکم کے نمائندے وہاں پہنچے،تو انہوں نے امام سفیا ن رحمہ اللہ سے پوچھا،آپ کہاں کے رہنے والے ہیں،امام صا حب رحمہ اللہ نے فرمایا: کوفہ کا،انہوں نے کہا: بصرہ کی رطب تازہ کھجور میٹھی ہے یا کوفہ کی؟ تو امام سفیان رحمہ اللہ نے جواب دیا،میں نے بصرہ کی رطب نہیں چکھی،انہوں نے کہا: تم کس قدر جھوٹی بات کرتے ہو،تمام نیک و بد تازہ کھجوریں کھاتے ہیں،مگر تمہیں اس کا علم نہیں،وہ وہاں سے نکلے تو اپنے عامل کو جاکر یہ بات بتلائی،اس نے کہا: اگر تم سچ کہتے ہوتو وہ سفیان ثوری رحمہ اللہ ہوں گے،بھاگو انہیں پکڑو تاکہ خلیفہ کے ہاں سرخرو ہوں،چنانچہ وہ وہاں پہنچے،مگر امام سفیان رحمہ اللہ وہاں |