پکا کرکھائیں گے،اس نے کہا جب تک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت نہ کر لوں (اس وقت تک مردار کھا نہیں سکتے) چنانچہ اس نے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اس بارے سوال کیا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تمہارے پاس کچھ ہے جس سے تمہارا گزر ہوسکے،اس نے کہا نہیں،تب آپ نے فرمایا: تم کھا سکتے ہو۔کچھ عرصہ بعداس اونٹنی کا مالک آیا،تو اس نے سارا قصہ کہہ سنایا،اس نے کہا: تم نے اسے ذبح کیوں نہ کر لیا،اس نے کہا: تم سے مجھے حیا آتی تھی۔(ابوداؤد مع العون: ص ۴۲۲ ج ۳)
غور فرمائیے،یہ مرد مومن فقرو فاقہ کے باعث مردار کھانے پر مجبور،مگر مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کرنے سے اسے حیا مانع رہی،کہ اس نے تو مجھے اونٹنی پکڑ لینے کا کہا،کسی اور اقدام کی اجازت نہیں دی۔
۳۔ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا شمار کبار محدثین میں ہوتا ہے،امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے: کہ میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات کو دیکھا،مگر مجھے سوائے شرف صحبت اور آپ کی معیت میں جہاد کرنے کے اور کوئی عمل ایسا نظر نہیں آیا،جو انہوں نے کیا ہواور ابن مبارک رحمہ اللہ اس سے پیچھے رہے ہوں۔(التہذیب :ج۱ص۳۸۵) اس ایک قول سے ان کی جلالت شان کا اندازہ لگایا جاسکتا،انہی کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ملک شام میں کسی ساتھی سے قلم عاریۃ لیا،اسے واپس کرنا یاد نہ رہا،تو وہ اپنے وطن مرو میں لے آئے،جب یاد آیا تو پھر ملک شام میں وہ قلم واپس دینے کے لئے تشریف لے گئے۔( التہذیب: ج۵ص۳۸۷،بستان المحدثین :ص ۱۰۳)
۴۔ امام عبداللہ بن مبارک کے والد مبارک بن واضح رحمہ اللہ بھی بڑے متقی اور پرہیز گار تھے اور ایک ترک تاجر کے غلام تھے ان کے بارے میں لکھا ہے،کہ ان کے مالک نے انہیں اپنے باغ کا نگران مقرر کررکھا تھا،ایک دن اس نے کہا :اے مبارک! باغ سے ایک ترش انار لے آؤ،وہ گئے،اور ایک انار لائے جو شیریں نکلا،مالک نے کہا میں نے تم کوترش انار لانے کے لئے کہا تھا،انہوں نے جواب دیا کہ میں کس طرح معلوم کرسکتا ہوں کہ کون سے درخت کے انار شیریں ہیں اور کون سے درخت کے ترش؟
|