ارتکا ب نہیں کر سکتا۔سید نا یوسف علیہ السلام کن امتحانات سے گزرے،سو رہ ء یو سف میں اسکی تفصیل موجو د ہے،ایک شا ہی خاند ان کی عو رت پر کیا موقو ف،وہاں تو شہر کی سب بیگمات انہیں اپنے دا من تزویر میں پھنسا نا چا ہتی تھیں،عزیزمصر کی بیو ی نے تو با لآ خر بھر ی مجلس میں کہہ ہی دیا کہ میری بات نہ ما نی تو ذلیل ورسو ا کر کے قید کرو ادوں گی،مگر حضرت یوسف علیہ السلام اپنے رب العزت سے عر ض گزارہیں : ﴿ قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیٓ اِلَیْہِ وَ اِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَھُنَّ اَصْبُ اِلَیْھِنَّ وَ أَکُنْ مِّنَ الْجَاھِلِیْنَ﴾(یوسف: ۳۳) اے میر ے رب جس چیز کی طر ف مجھے بلا رہی ہیں۔اس سے تو مجھے قید ہی زیادہ پسند ہے،اگر آ پ نے ان کے مکر و فر یب کو دو ر نہ رکھا تو میں انکی طر ف جھک جاؤں گا اور جاہلوں میں سے ہو جا ؤں گا۔ بدکاری سے بچنے کے حو الے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک و اقعہ ذکر فر مایا: جسے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یوں بیا ن فرمایا :کہ میں نے ایک دو مر تبہ نہیں بلکہ کئی مر تبہ آنحضرت سے سنا،کہ بنی اسر ائیل میں ایک کفل نامی شخص تھا،جو گنا ہوں سے اجتنا ب نہیں کرتاتھا،ایک روزاس کے پا س ایک عو رت آ ئی،تو اس نے اسے ساٹھ دینا ر کے عوض بد کاری کی دعوت دی،چنانچہ اس عمل کے لیے جب وہ عو رت پر بیٹھا تو وہ عورت کا نپ گئی اوررونے لگی کفل نے رو نے کی وجہ پو چھی،تو اس نے کہا میں نے یہ بر ا کا م کبھی نہیں کیا،آج غربت و افلاس نے مجبو ر کیا ہے تو تمہا رے پا س چلی آ ئی ہوں،کفل نے کہا،تو اللہ سے ڈرتی ہے تو میں زیادہ حقدا ر ہوں کہ اللہ سے ڈرو ں،کیونکہ میں پہلے سے ایک عا صی انسا ن ہوں،اٹھو چلی جا ؤ،اور یہ ساٹھ دینا ر بھی لیتی جا ؤ،اللہ کی قسم آج کے بعد میں کبھی اللہ کی نا فر ما نی نہیں کروں گا،اتفا ق کی بات کہ اس ر ات پیغا م اجل آ یا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا،صبح لو گوں نے دیکھا کہ اس کے درو از ے پر لکھا ہوا تھا ’’اِنّ اللّٰہَ قد غفر للکفل‘‘کہ اللہ تعا لیٰ نے کفل کو معا ف کر دیا۔(ترمذی و حسنہ :ج۳ص۳۱۶،ابن حبان،الحاکم و صححہ )۔عزت کی پاسداری اور آئندہ کے لیے گنا ہوں سے بچنے کی بر کت سے اللہ تعا لیٰ |