Maktaba Wahhabi

72 - 277
وبلاغت جو اس میدان میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہیں؛ ان کی غایت وکوشش یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس کلام پر قانع کرسکیں… اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا تقاضا یہی ہے: { تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ} [ الزمر ۲۳ ] ’’اس سے اپنے رب سے ڈرنے والوں کی کھالوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔‘‘ بیشک قرآن ایسے معانی پر مشتمل ہے جس سے کھالوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ان ہی معانی کو اس فصاحت و بلاغت سے موسوم کیا جاتا ہے جو نفوس میں اس کی عظمت و جلالت اور ہیبت اورخشیت کو پیدا کرتی ہے جس سے سامعین اس کی اتباع پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اور پھر قرآنی تعلیمات میں جو کچھ امر و نہی کی صورت میں پاتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور یہ حالت جس میں خشیت ؛ اور دل میں خوف اور ڈر بیدار ہوتا ہے ؛ یہاں اسی چیز سے کنایہ بیان کیا گیا ہے۔کیونکہ جب انسان ڈرتا ہے اور اپنے نفس میں ہیبت محسوس کرتا ہے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اسی حالت کو یہاں پر ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : { تَقْشَعِرُّ مِنْہُ } [ الزمر ۲۳ ] ’’اس سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘ یعنی اس قرآن کے سننے اور سمجھنے پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اس کا سننا اور سمجھنااس وقت میں متقابل [برابر] ہوتے تھے۔کیونکہ اس کے سننے والے اہل زبان لوگ تھے ۔کہا جاتا ہے : اقشعر الجلد کھال کے رونگٹے کھڑے ہوگئے جب وہ بہت سختی کے ساتھ تقابض محسوس کریں۔ جیسا کہ بہت سخت سردی کے وقت ہوتا ہے۔ اور ایسے ہی جب انسان کوئی ایسی خبر سنتا ہے جس کی وجہ سے اس میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوجائے اور خوف محسوس ہو تواسے بھی دل کی نرمی سے
Flag Counter