Maktaba Wahhabi

71 - 277
الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُّضْلِلْ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ } [الزمر ۲۳] ’’اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا، وہ کتاب جو باہم ملتی جلتی ؛دھرائی جانے والی ہے، اس سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ، پھر ان کی کھالیں اور دل ذکرالٰہی کی طرف نرم پڑجاتے ہیں۔یہ اللہ کی ہدایت ہے،وہ اس سے جسے چاہے ہدایت دے اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔‘‘ علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ قرآن کریم کی کئی ایک صفات بیان کرنے کے بعد اس آیت کے معانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ پانچویں صفت:بیشک اس سے ان لوگوں کی کھالوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں۔یہ وصف اپنے سے پہلے وصف پر مرتب ہوتا ہے۔ یعنی قرآن کا بار بار دھرای جانا۔ اس کی اغراض جڑواں ہیں؛ اور تین جہات پر مشتمل ہیں: اول: …قرآن مجید کا جلال اور سننے والے کے دل میں اثر انگیزی وصف بیان کرنا۔ اس کی بہت ساری آیات میں ایسی نصیحتیں پائی جاتی ہیں جن سے دل نرم پڑ جاتے ہیں۔ یہ اس کے کمال کا وصف ہے۔کیونکہ ایسا ہونا دلوں میں اس کی قوت تاثیر کی وجہ سے ہے ۔ اہل خطابت و حکمت ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنے کلام سے مقصود تک رسائی حاصل کرلیں۔اسی کہ جو کلام سامعین کے سامنے رکھا جاتا ہے؛ اس سے مقصود اس پر عمل کرکے فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اور اہل خطابت
Flag Counter