Maktaba Wahhabi

262 - 277
اس حدیث میں دو اہم مسئلے : پہلا مسئلہ:… مکھی میں بیماری ہوتی ہے۔ اور یہ بات اب سائنسی دور کی لیبارٹریز میں تحقیقات سے ثابت ہو چکی ہے کہ مکھیاں جراثیم کو منتقل کرتی ہیں۔ اس لیے کہ مکھیاں گندگی پر بیٹھتی ہیں اوروہاں سے جراثیم اپنے ساتھ اٹھالیتی ہیں۔ دوسرا مسئلہ:… اس مکھی کے اندر ہی ان جراثیم کو مارنے والا مادہ موجود ہوتا ہے۔ اس مکھی کو صرف اس مائع چیز میں ڈبونے کی دیر ہے جس میں یہ گری ہے؛ کہ وہ مادہ نکل جاتا ہے۔ یہ تو اس حدیث کا معنی ہوا۔ مگر اب سائنس بھی یہی کہتی ہے۔ ماضی میں لوگ اس عمل کی میڈیکل یا سائنسی علت کا ادراک نہیں کرسکتے تھے۔ پھر جب انسانی علوم نے ترقی کی؛ اور لیبارٹریز کو وجود ملا؛ مکھی پر بھی تحقیق ہوئی۔ ان تحقیق کرنے والوں کو اس حدیث کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اس لیے کہ تحقیق کرنے والے غیر مسلم تھے ۔ پھر جب یہ نتائج سامنے آئے؛ اور مسلمانوں کوان سے آگاہی ہوئی تو پتہ چلا کہ سائنس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے سچ اور صحیح ہونے کا اقرار کرتی ہے۔ ذیل میں کچھ تحقیقات پیش ہیں: 1971ء میں ایک جرمن ڈاکٹر بریفلڈ نے ہول یونیورسٹی میں ایک تحقیق کی ۔ جس میں وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ مکھی نے فطری طور پر جراثیم کش مادہ چھپائے ہوتی ہے۔ اور جب اسے ہلکا سا دبایا جائے تو وہ مادہ پھٹ کر باہر آجاتا ہے۔ اس سے پہلے پروفیسر ڈاکٹر لانگرون ؛ جو کہ نیچریات کے پروفیسر تھے؛نے اس قسم کی تحقیق 1945ء میں پیش کی تھی۔ اور دو انگریز ڈاکٹروں پروفیسر آرنچین وکوک اور سویزر لینڈ کے پروفیسررولیوس نے اس کی تائید کی تھی۔ اس کے بعد تحقیقات کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان میں سے ہر ایک نے سابقہ تحقیق کی تائید اور حمایت کی تھی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس دور میں یہ خبریں وہی ہستی دے سکتی تھی جس نے
Flag Counter