Maktaba Wahhabi

210 - 277
اسی طرح غزنوی نے ذکر کیا ہے، یعنی شمسی سال اور قمری سال کے اختلاف کے سبب کیونکہ ہر تینتیس سال میں ایک سال کا فرق بنتا ہے پس تین سو سال میں نو سال کا فرق ہوجائے گا۔‘‘ [تفسیر القرطبی 10؍ 335] امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مدت کی خبر دیتے ہیں، جو اصحاب کہف نے اپنے سونے کے زمانے میں گزاری؛جب اللہ تعالیٰ نے انہیں سلایا؛ اس وقت سے لیکر اللہ تعالیٰ کے ان کو بیدار کرنے تک۔جب اس زمانے کے لوگوں نے ان نوجوانوں کو پا لیا ؛ وہ مدت سورج کے حساب سے تین سو سال کی تھی اور چاند کے حساب سے تین سو نو سال کی تھے۔ فی الواقع شمسی اور قمری سال میں سو سال پر تین سال کر فرق پڑتا ہے، اسی لیے تین سو الگ بیان کر کے پھر نو الگ بیان کیے۔‘‘ [تفسیر ابن کثیر ۳؍ ۱۰۹] علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ان کے اس [غار میں] ٹھہرنے کے عرصہ کا اندازہ لگائیں تو اسے تین سو سالوں سے تعبیر کرکے اس پر نو سال زیادہ کیے گئے ہیں۔تاکہ اس سے پتہ چل جائے کہ قمری حساب سے تاریخ اہل عرب اور اسلام کے لیے مناسب ہے۔اور اس کے ساتھ ہی یہ اشارہ بھی کردیا ہے کہ شمسی کلینڈر کے حساب سے یہ کتنا عرصہ بنے گا۔ جو کہ ان لوگوں کے ہاں تاریخ کا حساب ہے جو اہل کتاب ہیں؛ انہی میں سے اہل کہف بھی تھے؛ یہ لوگ بلاد روم سے تعلق رکھتے تھے۔‘‘ امام سہیلی رحمۃ اللہ علیہ نے روض الانف میں فرمایا ہے: ’’ نصاریٰ اہل کہف کے واقعہ کو جانتے تھے ؛ اور اس حساب سے تاریخ لکھا کرتے تھے۔‘‘ -دوبارہ علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ کا کلام - ’’اوروہ یہود جنہوں نے قریش کو سوالات سدھائے تھے؛ وہ مہینوں کی تاریخ قمری سال کے حساب
Flag Counter