Maktaba Wahhabi

189 - 277
{وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْدٍ وَّاِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ } [الذاریات 47] ’’اور آسمان کو ہم نے اپنی تائیدسے بنایا اوربیشک ہم وسعت دینے والے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ: انہوں نے ہی آسمان کی تخلیق کی ہے؛ اوربہت ہی پختہ تخلیق کی ہے؛ اور پھر اس کی وسعت میں اضافہ کیا جارہاہے۔ یہ اس آیت کا ظاہری معنی ہے۔ جبکہ قدیم مفسرین سے اس آیت کی تفسیر میں مختلف اور مضطرب اقوال منقول ہیں؛ ان اقوال میں سے : ۱۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اثبات ہے۔ ۲۔ اس سے مراد خرچ کرنے میں وسعت ہے۔ ۳۔ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلے میں وسعت دینا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو جدید سائنسی علوم سے مطابقت رکھتا ہے۔ علامہ نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : {وَّاِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ } [الذاریات ۴۷] ’’اوربیشک ہم وسعت دینے والے ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ: ہم اس میں وسعت دینے پر قادر ہیں؛ یہ طاقت رکھتے ہیں۔ یا پھر خرچ میں وسعت دینے والے ہیں یا پھر زمین و آسمان کے مابین وسعت دینے والے ہیں۔‘‘ [تفسیر نسفی 4؍181] علامہ ابو حیان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: {وَّاِِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ } [الذاریات 47] ’’اوربیشک ہم وسعت دینے والے ہیں۔‘‘ یعنی اس کی تخلیق میں؛ یہ جملہ حالیہ ہے۔ یعنی ہم نے اسے بنایا ہے؛ اوراس میں وسعت کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: زید آیا اور وہ بہت جلدی میں تھا۔ یعنی اسے جلدی تھی۔ پس یہ آسمان کے اس اعتبار سے ہے کہ زمین اور اس کو
Flag Counter