Maktaba Wahhabi

134 - 277
طرح یہ لوگ دین حق کو قبول کرلیں۔ ادھرایک نابینا صحابی تشریف لے آئے؛ جنہیں عبداللہ بن ام مکتوم کہا جاتاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے گفتگو کر ہی رہے تھے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یارسول اللہ ! ’’قرآن پاک کی کوئی آیت مجھے سنایئے اورجو باتیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھائی ہیں ان میں سے کچھ باتیں سکھایئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ان کی بات ذرا بے موقع لگی اور منہ پھیر لیا اور ادھر ہی متوجہ رہے؛ان سے[اس وقت] بات کرنا مناسب ہی نہ سمجھا۔ جب ان سے باتیں پوری کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر جانے لگے تو آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور سر نیچا ہوگیا اور یہ آیتیں اتریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {عَبَسَ وَتَوَلّٰی (1) اَنْ جَائَہُ الْاَعْمٰی (2) وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہُ یَزَّکّٰی (3) اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی (4) } [عبس 1۔4] ’’اس نے تیوری چڑھائی اورمنہ پھیر لیا۔کہ اس کے پاس اندھا آیا۔ اورآپ کو کیا معلوم کہ شاید اس کا تزکیہ ہو۔ یا نصیحت کیا جائے تونصیحت اسے فائدہ دے۔‘‘ پھر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور پوری توجہ سے کان لگا کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے آتے جاتے ہر وقت پوچھتے کہ کچھ کام ہے کچھ حاجت ہے کچھ کہتے ہو کچھ مانگتے ہو؟‘‘ [ابن جریر نے کہاہے: یہ روایت غریب اور منکر ہے اور اس کی سند میں بھی کلام ہے۔ تفسیر الطبری 30؍53] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ان آیات کی شان نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا جارہا ہے کہ :دعوت دین کو کسی ایک کے ساتھ خاص نہ کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین میں شریف و ضعیف، فقیر و غنی، آزاد و غلام، مرد و عورت، چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو یکساں نصیحت کیا کریں۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ اگر کسی کو راہ راست سے دور
Flag Counter