Maktaba Wahhabi

126 - 277
چیزیں لازم کی گئیں جس سے ان کا اس دعوی میں جھوٹا ہونا کھل کر واضح ہوگیا۔ یہ باتیں صرف ان کی زبانوں سے نکلتی ہیں جن کی کوئی دلیل اوربرہان نہیں ہے۔ …آگے فرمایا…: ’’ یہاں پر تمنا سے مراد ان الفاظ کا زبان سے ادا کرنا ہے جو اس کی دلیل بن جائیں۔ نہ کہ محض دل میں خیال آنا۔ اورنفس کا اس طرف مائل ہونا۔ کیونکہ مناظرہ کے میدان میں فریق مخالف کیساتھ؛چیلنج کے موقع پر ایسی چیزیں مراد نہیں ہوتیں۔پس ان کا موت کی تمنا کو ترک کرنا؛ اور اس سے منہ موڑ لینا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ ہے۔ وہ انتہائی متکبر اور اللہ تعالیٰ اور انبیائے کرام علیم السلام پرباطل دعوے کرنے کی جرأت والے لوگ تھے؛ جیسا کہ قرآن کریم نے ان کے کئی واقعات نقل کیے ہیں۔ انہوں نے اپنی وہی عادات یہاں بھی ترک نہیں کیں۔بس یہ صرف اس لیے ہوا کہ انہیں پورا یقین تھا کہ اگر انہوں نے موت کی تمنا کی تو انہیں موت آہی جائے گی۔ یہ بات یا تو وہ یقینی طور پر جانتے تھے؛ یا پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے سے موڑ دیا ۔[فتح القدیر 1؍180] علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ظاہر ہے کہ یہ خطاب ان لوگوں کی نسبت سے ہے جو نزول قرآن کے وقت مخاطب تھے۔اور ان میں سے کسی ایک سے بھی منقول نہیں ہے کہ اس نے موت کی تمنا کی ہو۔ جیسا کہ آیت کریمہ میں اس کی خبر دی گئی ہے۔ اور مزید برآں یہ یہودیوں کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے۔کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کرے گا۔ اوریہ بھی یقین تھا کہ اس کی قوم کے باقی لوگ بھی موت کی تمنا نہیں کریں گے۔اس لیے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک ایسی تمنا کرتا تو وہ ضرور اس کا اعلان کرتا۔ کیونکہ انہیں علم تھا کہ ان میں سے ہر ایک کی حریصانہ کوشش یہ ہے کہ وہ اس
Flag Counter