Maktaba Wahhabi

79 - 156
’’اس کی وجہ سے وضو کیا جائے گا۔‘‘ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول بھی ہے کہ ’’باقی رہی منی کی بات تو اس سے مراد وہ پانی ہے جس کی وجہ سے غسل ضروری ہوتا ہے، اور جہاں تک مذی اور ودی کا تعلق ہے تو فرمایا کہ ’’اپنی شرم گاہ دھو لیجئے (ذکر یا مذاکیر کا لفظ استعمال کیا)۔ اور نماز کے وضو کی طرح وضو کیجئے۔‘‘ اسے بیہقی نے سنن میں بیان کیا ہے۔ ۲۔ وہ گہری نیند کہ جس کے ساتھ شعور باقی نہ رہے، نیز پیٹھ زمین پر بھی لگی ہوئی نہ ہو۔ کیونکہ صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی حالت میں ہمیں تلقین کرتے کہ ہم تین دن اور رات موزے صرف جنابت کی وجہ سے اتاریں ۔ البتہ پیشاب وپاخانہ اور نیند کی وجہ سے نہ اتاریں ۔‘‘ اس روایت کو احمد، نسائی اور ترمذی نے بیان کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ تو جب سونے والا اپنے پیٹھ کو زمین پر لگائے ہوئے ہوگا تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اس بات پر انس رضی اللہ عنہ کی حدیث محمول کی جائے گی۔ کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نماز عشاء کا انتظار کرتے حتی کہ ان کے سر جھک جاتے، پھر وہ نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔‘‘ اسے شافعی، مسلم، ابو داؤد اور ترمذی نے بیان کیا ہے۔ اور شعبہ کی سند سے ترمذی کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا کہ انھیں نماز کے لیے جگایا جاتا حتی کہ میں ان میں سے کسی کے خراٹوں کی آواز سنتا۔ پھر وہ کھڑے ہوتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔‘‘ ابن مبارک کہتے ہیں کہ یہ ہمارے نزدیک ہے کہ وہ بیٹھے ہوتے تھے۔ تمام المنہ میں شیخ البانی نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ نیند مطلقا ناقض وضو ہے، خواہ انسان بیٹھا ہو یا لیٹا، اونگھ ہو یا گہری نیند۔ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمان ہے : ((عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: ((کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَاْمُرُنَا، اَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا، ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ، إِلَّا مِنْ جَنَابَۃٍ، لَکِنْ مِنْ غَائِطٍ، وَبَوْلٍ، وَنَوْمٍ)) اس کے علاوہ حسن درجے کی یہ روایت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے:
Flag Counter