Maktaba Wahhabi

55 - 156
کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ عطابن یسار مشہور تابعی ہیں ۔ آپ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔ بہت متقی شخص تھے، مسجد نبوی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کو شش کرتے۔ اسکندریہ میں تقریبا ۹۵ ہجری میں وفات پائی۔ بالوں کو منڈھوانا جائز ہے اور اسی طرح جو شخص ان کا اکرام کرے اس کے لیے گھنے رکھنا بھی جائز ہے۔ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ ’’ سارے بالوں کو منڈھوا دیجئے یا سبھی کو چھوڑ دیجئے۔‘‘ رواہ احمد ومسلم وابو داؤد والنسائی۔ جہاں تک کچھ بالوں کو چھوڑنے اور کچھ کو باقی رکھنے کا معاملہ ہے تو یہ مکروہ تنزیہی ہے۔ کیونکہ نافع ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع کیا ہے۔ تو نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ بچے کے کچھ بالوں کو مونڈھا جائے جبکہ کچھ کو باقی رکھا جائے۔‘‘ متفق علیہ۔ نیز ابن عمر رضی اللہ عنہما کی گذشتہ بالا حدیث بھی اس کی دلیل ہے۔ ۸۔ سفید بالوں کو چھوڑ دینا اور انھیں باقی رکھنا، خواہ وہ داڑھی میں ہوں یا سر میں ۔ اور مرد و عورت اس حکم میں ایک سے ہیں ۔ کیونکہ عمرو بن شعیب اپنے باپ شعیب سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ سفید بالوں کو نہ اکھاڑا جائے کیونکہ وہ مسلمان کا نور ہوتے ہیں ۔ کوئی بھی مسلمان جو اسلام میں بوڑھا ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے لیے نیکی لکھ دیں گے اور اس کے بدلے میں غلطی کو مٹا دیں گے۔‘‘ رواہ احمد وابو داؤد والترمذی والنسائی وابن ماجہ۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ہم ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص اپنے بالوں یا داڑھی سے سفید بال اکھاڑے۔‘‘ رواہ مسلم۔ ۹۔ سفید بالوں کو مہندی، سرخ اور زرد رنگ وغیرہ سے بدلنا۔ کیونکہ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ یہود اور عیسائی بالوں کو رنگتے نہیں ہیں اس لیے ان کی مخالفت کیجئے۔‘‘ رواہ الجماعۃ
Flag Counter