Maktaba Wahhabi

128 - 156
پڑھا دی۔ تو جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ’’ اے عمرو کیا آپ نے اپنے ساتھیوں کو جنابت کی حالت میں ہی نماز پڑھا دی؟ ‘‘ تو میں نے عرض کیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد آگیا تھا کہ ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تم پربہت مہربان ہے۔‘‘ اس لیے میں نے تیمم کیا اور نماز پڑھا دی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے اور کچھ بھی نہیں کہا۔‘‘ رواہ احمد وابوداود والحاکم والدار قطنی وابن حبان۔ اور امام بخاری نے اسے معلق بیان کیا ہے۔ اس میں اقرار ہے اور اقرار حجت ہوتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باطل چیز کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ ایسا ممکن نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی غلط کام کیا جائے یا کہا جائے اور آپ خاموشی اختیار فرمائیں ۔ کیونکہ خاموشی نیم رضا مندی یا مکمل رضا مندی ہوتی ہے۔ اور نبی غلط کام پر رضا مندی اختیار نہیں فرماتے۔ اسی لیے ایسے کام کو بھی دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور اسے تقریری سنت کا نام دیا جاتا ہے۔تقریری حدیث کی چند مثالیں تلاش کیجئے۔ د: جب پانی تو اس شخص کے پاس ہو لیکن وہ اپنی جان یا عزت یا مال یا ساتھیوں کے چلے جانے کا خوف رکھتا ہو یا پانی اور اس کے مابین دشمن حائل ہو جس سے اسے ڈر ہو خواہ وہ دشمن آدمی ہو یا کچھ اور۔ یا وہ شخص قید میں ہو یا پانی نکالنے سے عاجز آجائے وجہ اس کی پانی نکالنے کے آلات کا نہ ہونا ہو مثلا رسی یا ڈول۔ کیونکہ ان صورتوں میں پانی کا ہونا بھی ناہونے کی طرح ہی ہے۔ نیز جو شخص اندیشہ رکھے کہ اگر اس نے غسل کیا تو اس پر ایسا بہتان لگ جائے گا جس سے وہ بری ہے اور کوئی شخص اسے نقصان پہنچائے گا تو تیمم اس کے جائز ہے۔ ھ: جب اسے فورا یا بعد میں اپنے یا کسی اور کے پینے کے لیے پانی کی ضرورت ہو، اگرچہ وہ کتا ہی ہو ہاں باؤلا نہ ہو یا کھانے و پکانے کے لیے پانی کی ضرورت ہو یا نجاست کہ جس سے معافی نہیں ہے کو زائل کرنے کی ضرورت ہو تو وہ تیمم کرے گا اور اپنے پاس موجود پانی کو محفوظ رکھے گا۔امام احمد رحمہ اللہ نے اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو سفر میں ہو اور اسے جنابت طاری ہوجائے اور اس کے پاس پانی بھی کم ہو اور اسے
Flag Counter